Friday, 27 March 2015

جو بظاہر نظر آتا ہے نہاں سا کچھ ہے

جو بظاہر نظر آتا ہے نہاں سا کچھ ہے
یہ جو ٹہرے ہوئے پانی میں رواں سا کچھ ہے
 یہ جو اٹھتا ہے تواتر سے دھواں سا کچھ ہے
آگ پکڑی ہے کہیں ہم نے گماں سا کچھ ہے
 مجھ کو یہ عیب محبت نہیں کرنے دیتا
دل میں جو وسوسۂ سود و زیاں سا کچھ ہے
مچھلیاں اس کے تعاقب میں لگی رہتی ہیں
ایک موسم، جو تہِ آبِ جواں سا کچھ ہے
سب نظاروں کو اٹھا لائی ہے چشمِ نمناک
اب یہاں جو بھی ہے  موجود وہاں سا کچھ ہے
کچھ نہ کچھ اور بھی اس کچھ کے علاوہ تو نہیں
یہ جو کچھ ہے بھی مِرے پاس کہاں سا کچھ ہے
"آخرش ایک صدی بعد کہا اس نے "نہیں
اور اس ناں کے پسِ پشت بھی ہاں سا کچھ ہے
اپنے ہونے کے، ناں ہونے کے حوالے سے علی
ہے نہیں کچھ بھی مگر وہم  و گماں سا کچھ ہے
جعفری کیا ہے، ہنر ہے کہ کوئی عیب نیا
دھیمے اسلوب میں جو زورِ بیاں سا کچھ ہے

لیاقت جعفری 

No comments:

Post a Comment