Friday 20 March 2015

مجھے گر کر سنبھلنے میں‌‌ ذرا سی دیر باقی ہے

ابھی منظر بدلنے میں‌ ذرا سی دیر باقی ہے
مجھے گر کر سنبھلنے میں‌‌ ذرا سی دیر باقی ہے
ابھی پوری طرح جاگا نہیں میں خواب غفلت سے
طبیعت کے سنبھلنے میں‌ ذرا سی دیر باقی ہے
دیا بجھنے نہ دینا تم کسی بھی طور سے دل کا
ہوا کا رخ بدلنے میں ذرا سی دیر باقی ہے
نبردِ جنگ جو راتوں سے ہیں ان سے یہ کہہ دینا
کہ اب سورج نکلنے میں ذرا سی دیر باقی ہے
ابھی دستِ دعا کے پھولوں میں خوشبو نہیں آئی
ہوا کےساتھ چلنے میں‌ ذرا سی دیر باقی ہے
ابھی یہ رنگِ محفل جوش پر آیا نہیں‌ثاقب
ابھی دل کو مچلنے میں‌ ذرا سی دیر باقی ہے

سہیل ثاقب

No comments:

Post a Comment