اس قدر عام تو نہیں ہوتے
شعر، الہام تو نہیں ہوتے
عشق میراث میں نہیں ملتا
خواب نیلام تو نہیں ہوتے
قیس، فرہاد، لیلیٰ و شیریں
سب کو شہرت نہیں ملا کرتی
سب پہ الزام تو نہیں ہوتے
اِن کو تُو بام و در سمجھتا ہے
یہ در و بام تو نہیں ہوتے
کچھ پرندے ہوا کے قیدی ہیں
سب تہِ دام تو نہیں ہوتے
شہر، کھنڈرات میں بدلتے ہیں
دشت، گمنام تو نہیں ہوتے
تم پہ ہی کھل نہیں سکے ورنہ
لوگ ابہام تو نہیں ہوتے
شاعری، بت گری، جنوں گردی
اجرتی کام تو نہیں ہوتے
عمران عامی
No comments:
Post a Comment