فضا میں وحشتِ سنگ و سِناں کے ہوتے ہوئے
قلم ہے رقص میں آشوبِ جاں کے ہوتے ہوئے
ہمیں میں رہتے ہیں وہ لوگ بھی کہ جن کے سبب
زمیں بلند ہوئی آسماں کے ہوتے ہوئے
بضد ہے دل کہ نئے راستے نکالے جائیں
نشانِ رہگزرِ رفتگاں کے ہوتے ہوئے
میں چپ رہا کہ وضاحت سے بات بڑھ جاتی
ہزار شیوۂ حسنِ بیاں کے ہوتے ہوئے
دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے
قلم ہے رقص میں آشوبِ جاں کے ہوتے ہوئے
ہمیں میں رہتے ہیں وہ لوگ بھی کہ جن کے سبب
زمیں بلند ہوئی آسماں کے ہوتے ہوئے
بضد ہے دل کہ نئے راستے نکالے جائیں
نشانِ رہگزرِ رفتگاں کے ہوتے ہوئے
میں چپ رہا کہ وضاحت سے بات بڑھ جاتی
ہزار شیوۂ حسنِ بیاں کے ہوتے ہوئے
دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے
افتخار عارف
No comments:
Post a Comment