Sunday, 29 March 2015

غم کی جاگیر کو کچھ اور بڑھا سکتے ہو


غم کی جاگیر کو کچھ اور بڑھا سکتے ہو
تم اگر چاہو مجھے چھوڑ کے جا سکتے ہو
خواب میں ساتھ تھے ہم، چاند مِری مُٹھی میں
تم جو چاہو اسے تعبیر بنا سکتے ہو
آئینہ ٹوٹ کے حصوں میں بٹا ہے کیسے
میں ہوں خاموش اگر، تم تو بتا سکتے ہو
عشق ہر ایک رکاوٹ کو مِٹا دیتا ہے
آسماں تک کوئی دیوار اٹھا سکتے ہو
اس سے حاصل تو نہیں کچھ بھی مگر چاہو تو
عدل کے شہر کی زنجیر ہلا سکتے ہو
ہجر، سرطان کی صورت میں پنپتا ہو جہاں
خون میں وصل کی تصویر سجا سکتے ہو

فاخرہ بتول

No comments:

Post a Comment