غم کی جاگیر کو کچھ اور بڑھا سکتے ہو
تم اگر چاہو مجھے چھوڑ کے جا سکتے ہو
خواب میں ساتھ تھے ہم، چاند مِری مُٹھی میں
تم جو چاہو اسے تعبیر بنا سکتے ہو
آئینہ ٹوٹ کے حصوں میں بٹا ہے کیسے
عشق ہر ایک رکاوٹ کو مِٹا دیتا ہے
آسماں تک کوئی دیوار اٹھا سکتے ہو
اس سے حاصل تو نہیں کچھ بھی مگر چاہو تو
عدل کے شہر کی زنجیر ہلا سکتے ہو
ہجر، سرطان کی صورت میں پنپتا ہو جہاں
خون میں وصل کی تصویر سجا سکتے ہو
فاخرہ بتول
No comments:
Post a Comment