Sunday 8 March 2015

جو مری ذات کے منافی ہیں

جو مِری ذات کے منافی ہیں
میری تصدیق کو وہ کافی ہیں
کام شاید تمہارے آ جائیں
ہم جو اپنے لیے اضافی ہیں
بس وہ آنکھیں جو پھیر لیں تُو نے
تیرے ہر جرم کی تلافی ہیں
ہو رہی ہے غزل مراسم کی
پے بہ پے نِت نئے قوافی ہیں
درد کو زخم سے کھرچتے ہیں
میرے ناخن بھی کتنے شافی ہیں

عمار اقبال

No comments:

Post a Comment