Wednesday, 25 March 2015

کسی کا در نہ کوئی آستانہ آگے تھا

کسی کا در، نہ کوئی آستانہ آگے تھا
اس آشنا کا تو دل میں ٹھکانہ آگے تھا
میں خوش نشیں تھا کہ دوگام ہی تو جانا تھا
میں دیکھتا ہوں تو کوسوں زمانہ آگے تھا
کہانیاں بھی اِنہیں سانحوں سے بنتی ہیں
جو رنج جھیل رہا ہوں، فسانہ آگے تھا
سنا ہے اہلِ ہوس اب وفا کے گاہک ہیں
یہ کاروبار نہ ہم سے ہُوا، نہ آگے تھا
مِری غزل نے وہ شہرت تِرے جمال کو دی
تِری تلاش میں مجھ سے زمانہ آگے تھا
لہو کی لہر سے اب کوئی لَے نہیں اٹھتی
یہ ہجر سازِ سخن کا بہانہ آگے تھا
زمانوں بعد اسے دیکھا تو آج سوچتے ہیں
مزاج اپنا ہی کچھ عاشقانہ آگے تھا
بزرگ کہتے ہیں اب جس جگہ یہ مسجد ہے
اسی نواح میں ایک بادہ خانہ آگے تھا
بھٹک گیا کہ کہیں پا شکستہ بیٹھا ہے
جو زعمِ تیز روی میں روانہ آگے تھا
فرازؔ اب کہاں ملتے ہیں ہوش والے بھی
وگرنہ، شہر میں کیا کیا دِوانہ آگے تھا

احمد فراز

No comments:

Post a Comment