Sunday 22 March 2015

جنوں کا رنگ بھی ہو شعلہ نمو کا بھی ہو

جنوں کا رنگ بھی ہو شعلہ نمو کا بھی ہو
سکوتِ شب میں اک انداز گفتگو کا بھی ہو
میں جس کو اپنی گواہی میں لے کے آیا ہوں
عجب نہیں کہ وہی آدمی عدو کا بھی ہو
وہ جس کے چاک گریباں پہ تہمتیں ہیں بہت
اسی کے ہاتھ میں شاید ہنر رفو کا بھی ہو
وہ جس کے ڈوبتے ہی ناؤ ڈگمگانے لگی
کسے خبر وہی تارہ ستارہ جو کا بھی ہو
ثبوت محکمی جاں تھی جس کی برّشِ ناز
اسی کی تیغ سے رشتہ رُخِ گلو کا بھی ہو
وفا کے باب میں کارِ سخن تمام ہوا
مِری زمیں پہ اک معرکہ لہو کا بھی ہو

افتخار عارف​

No comments:

Post a Comment