زعفرانی کلام
مہرالنساء کے ساتھ تھا کل تک اور آج میں
زیب النساء کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو
تصویر میں جو دیکھ رہے ہو مجھے اداس
میں اہلیہ کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو
حمامِ عاشقی میں برہنہ نہیں ہوں میں
اک تولیہ کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو
زعفرانی کلام
مہرالنساء کے ساتھ تھا کل تک اور آج میں
زیب النساء کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو
تصویر میں جو دیکھ رہے ہو مجھے اداس
میں اہلیہ کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو
حمامِ عاشقی میں برہنہ نہیں ہوں میں
اک تولیہ کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو
زعفرانی کلام
حاضر شراب تاڑی مدک اور افیون ہے
اس پر بھی ان پہ طاری سیاسی جنون ہے
بیگم نے خوب مجھ سے جھگڑتے ہوئے کہا
"آزادئ وطن میں ہمارا بھی خون ہے"
وہ اس طرح سے مجھ پہ جھڑپتی ہے رات دن
جیسے دماغ اس کا مئی ہے کہ جون ہے
زعفرانی کلام
ہو سمندر کے اگر پار کہاں ممکن ہے
یومِ سسرال پہ انکار کہاں ممکن ہے
میکے تو آج نہیں کل نہیں پرسوں جانا
بیوی کے آگے یہ تکرار کہاں ممکن ہے
بیویوں والے تو جاتے ہیں عقیدت لے کر
چھوڑ کے جائیں یہ دربار کہاں ممکن ہے
زعفرانی کلام
بہت دن میں ملی ہو یہ بتاؤ حال کیسا ہے
تمہاری زندگی کے ساتھ اب جنجال کتنے ہیں
تمہاری سیٹنگ کی پائیداری کتنی قائم ہے
تمہارے دوسرے شوہر کے سر میں بال کتنے ہیں
تمہاری کوئی فرمائش کبھی رد تو نہیں کرتا
وہ ہفتے میں تمہیں سنیما کے کتنے شو دکھاتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
انؐ کی الفت کا جسے رتبہ سمجھ میں آیا
انؐ پہ مرنا ہی اسے جینا، سمجھ میں آیا
آپؐ کی آل سے جس نے بھی محبت کی ھے
پیاس کا معنی اسے دریا سمجھ میں آیا
چودھویں شب کو ہوا چاند مکمل تو مجھے
انؐ کے تلووں کا حسیں نقشہ سمجھ میں آیا
ضبط دو روز بھی ان سے نہ ہوا میرے بعد
میں جو کہتی تھی وہی ہو کے رہا میرے بعد
اچھا کھاؤ تو قسم سر پہ میرے رکھ کر ہاتھ
میرے بچوں سے کرو گے نہ دغا میرے بعد
جو مِرے واسطے چوتھی کا بنا تھا جوڑا
وہی جوڑا مِری سوتن کو چڑھا میرے بعد
زندگی کا مزا نہیں ملتا
بُت ملے تو خُدا نہیں ملتا
منزل آخری ہے قبر مِری
اب کوئی راستہ نہیں ملتا
خُوگر ظُلم ہو گیا ایسا
مجھ کو لُطف وفا نہیں ملتا
ملتفت جب سے نگاہِ ناز ہے
اور ہی کچھ عشق کا انداز ہے
گنگنایا نغمۂ دل حسن نے
سارا عالم گوش بر آواز ہے
پھیر کر منہ مسکرا کر دیکھنا
یہ ستانے کا نیا انداز ہے
جلا کر اپنا گھر بالک گیا ہے
لیے جو ہاتھ میں دیپک گیا ہے
سفر اب ختم ہونے کو ہے شاید
مسافر چلتے چلتے تھک گیا ہے
کریں گے فیصلہ اہلِ خرد یہ
جنوں میں کون کیا کیا بک گیا ہے
ساحلوں کا بھی نہ احساں تھا گوارا مجھ کو
اتنا دریا کے تلاطم نے سنوارا مجھ کو
پیاس ایسی ہے کہ اندر سے سُلگتا ہے بدن
اور پانی کے سوا کچھ نہیں چارا مجھ کو
اب تو دامن کو لپکتے ہیں لہو کے شعلے
اور پکارے ہے کہیں خون کا دھارا مجھ کو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شبیہ ابھری نظر میں ان کے جمال کی ہے
سو آج رونق ہی اور بزمِ خیال کی ہے
غموں کی شدت نے جب طبیعت نڈھال کی ہے
درودﷺ پڑھ کر شکستہ حالت بحال کی ہے
چھپے ہیں ابرِ فلک میں تارے، حیا کے مارے
کہ جوت پھیلی تِرےﷺ غبارِ نعال کی ہے
پیاس سے میری ڈر گیا پانی
ہو گیا خشک، مر گیا پانی
اب مجھے تیرنا دکھاؤ گے
اب تو سر سے گزر گیا پانی
ان سے غیرت کا درس کیا لیتے
جن کی آنکھوں کا مر گیا پانی
مِل کتنا دُھواں اُگل رہی ہے
کس کس کی حیات جل رہی ہے
لفظوں کو حنوط کرنے والو
انسان کی لاش گل رہی ہے
مصلوب ہے پیار کا فرشتہ
نفرت کی چڑیل پل رہی ہے
خوشی پر تِری ہر خوشی کو لٹا دوں
میں دنیا کی دل بستگی کو لٹا دوں
نچھاور کروں تجھ پہ چاند اور تارے
فلک کو، زمیں کو، سبھی کو لٹا دوں
اشارہ جو ہو تیرا، اے جانِ عالم
خوشی شے ہے کیا زندگی کو لٹا دوں
ہر اک بات میں تھا حجاب اول اول
نہ یوں تم تھے حاضر جواب اول اول
وفادار اغیار کا اب لقب ہے
کبھی تھا یہ میرا خطاب اول اول
ازل ہی سے کوثر کی لہروں میں ڈوبے
ہوئے غرق موجِ شراب اول اول
آباد اسی سے ہے ویرانہ محبت کا
ہشیاروں سے بڑھ کر ہے دیوانہ محبت کا
وہ رس بھری آنکھیں ہیں مے خانہ محبت کا
چلتا ہے نگاہوں سے پیمانہ محبت کا
اللہ نے بخشی ہے کیا نشو و نما اس کو
سو خِرمنِ ہستی ہے اک دانہ محبت کا
کہوں دنیا میں اب میں کس سے جا کر
اگر کرنا ہے کچھ تھوڑی وفا کر
ہمارے بخت میں آنسو نہیں ہیں
کوئی حاصل نہیں دریا بہا کر
میں خالی چشم لوٹ آیا دوبارہ
تُو دریا ہے تو دو آنسو عطا کر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے خدا رہنمائی دے ہم کو
راہِ حق تک رسائی دے ہم کو
لذتِ پارسائی دے ہم کو
معصیت سے رہائی دے ہم کو
پھر غمِ دل سے چُور ہو جائیں
درد سے آشنائی دے ہم کو
وہ جو خود سے سوالی رہے ہیں
دوسروں کے بھی والی رہے ہیں
ان کو خوشیاں میسّر نہ آئیں
درد و غم سے جو خالی رہے ہیں
دل کے پیڑوں کو ہم سینچ کر بھی
بے ثمر ڈالی ڈالی رہے ہیں
ستم دوست کا گلہ کیا ہے
سنبھل اے دل تجھے کہا کیا ہے
نگہ ناز کو نہ دو تکلیف
دل میں اب یاس کے سوا کیا ہے
جس کو مرنے کی بھی امید نہ ہو
اس کی حسرت کو پوچھنا کیا ہے
بحر دقیانوسیت
زبانی جنگ کی کیسی ہے فطرت
سیانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے
مُڑے گی جانے کن اندھی گلی میں
کہانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے
شباب آیا ہے افواہوں پہ یکسر
جوانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے
نئی دنیا ترا چرچا بہت ہے
مِرا بیٹا بھی آوارہ بہت ہے
میں شاید پاگلوں سا لگ رہا ہوں
وہ مجھ کو دیکھ کر ہنستا بہت ہے
یہ بکھری پتیاں جس پھول کی ہیں
وہ اپنی شاخ پر مہکا بہت ہے
جو بشر طوفاں سے ٹکراتا نہیں
اپنی عظمت کو سمجھ پاتا نہیں
جستجو میں خود جو کھو جاتا نہیں
گوہر مقصود کو پاتا نہیں
کس کو دیکھیں اس بھری دنیا میں ہم
کوئی بھی تم سا نظر آتا نہیں
اک جبر مستقل ہے مسلسل عذاب ہے
کہنے کو زندگی پہ غضب کا شباب ہے
پوچھا کسی نے حال تو دیوانہ رو دیا
کتنا حسین، کتنا مکمل جواب ہے
کیوں تلخیٔ حیات کا احساس ہو چلا
یارو ابھی تو رقص میں جام شراب ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ جلوہ ہے نور کبریا کا
وہ صدر ہے بزم اصطفا کا
امام ہے خیل انبیا کا
ہے پیشوا مسلک ہدیٰ کا
معین انصاف او وفا کا
مٹانے والا وہ جفا کا
میں اپنی ذات میں تنہا
میں اپنی ذات میں تنہا
سبھی ہیں دوست میرے پر
نہیں ہے چارہ گر کوئی
میں اپنی ذات میں تنہا
کسے دیکھوں، کسے ڈھونڈوں
یہاں ہر سمت ویرانی
گماں اس کا ہے، نیکوکار ہیں ہم
کہاں! اب صاحب کردار ہیں ہم
یہی سچ ہے کہ ان ملی بتوں سے
خدا جانے، بہت بیزار ہیں ہم
دیانت کا تقاضا اور کچھ ہے
خیانت کے علمبردار ہیں ہم
کہیں عزت کہیں انساں نے شرافت بیچی
کہیں کردار کو بیچا کہیں سیرت بیچی
آج انسان نے اجداد کی عظمت بیچی
اور پردے میں کہیں عصمت و عفت بیچی
اس سے بڑھ کر بھی ہے ذلت کی کوئی حد یارو
بیچ ڈالے کہیں اسلاف کے مرقد یارو
رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے
پھول ہنستے ہوئے نکلے ہیں نہاں خانوں سے
لاکھ ارمانوں کے اجڑے ہوئے گھر ہیں دل میں
یہ وہ بستی ہے کہ آباد ہے ویرانوں سے
لالہ زاروں میں جب آتی ہیں بہاریں ساقی
آگ لگ جاتی ہے ظالم ترے پیمانوں سے
بیتے ہوئے لمحات طرب پوچھ رہے ہیں
گُزری تھی کہاں اپنی وہ شب پوچھ رہے ہیں
کب تک میں چھپاؤں گا زمانے کی نظر سے
اب لوگ اُداسی کا سبب پوچھ رہے ہیں
کیا تم پہ بھی گزرا تھا یونہی نزع کا عالم
ہم لوگ جو ہیں جان بہ لب پوچھ رہے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حرف کب معتبر نہیں ہوتا
مدح میں صَرف گر نہیں ہوتا
داغِ ہجراں کسے دکھاتے گر
تجھ سا خیرالبشر نہیں ہوتا
دل کو اعزاز ہے تِری آمد
ہر کسی کا یہ گھر نہیں ہوتا
سر تو نیزے پہ ان کے اچھالے گئے
وہ مگر اپنا ایماں بچا لے گئے
خوب غیروں کے ارماں نکالے گئے
اور ہم تھے کہ باتوں میں ٹالے گئے
شوق منزل جنہیں تھا وہ ٹھہرے کہاں
راہ میں ان کی کانٹے بھی ڈالے گئے
دل کی خاطر ہی زمانے کی بلا ہو جیسے
زندگی اپنے گناہوں کی سزا ہو جیسے
دل کی وادی میں تمناؤں کی رنگا رنگی
کوئی میلہ کسی بستی میں لگا ہو جیسے
ہاں پکارا ہے غم زیست نے یوں بھی ہم کو
پیار میں ڈوبی ہوئی تیری صدا ہو جیسے
یہ صحرا کی صر صر صبا تو نہیں ہے
گُھٹن ہے محبت ہوا تو نہیں ہے
میاں تخت والے سے کیوں ڈر رہے ہو
فقط آدمی ہے خُدا تو نہیں ہے
چراغ محبت مِرے دل میں جاناں
ابھی جل رہا ہے بُجھا تو نہیں ہے
کب تلک چلتا رہے گا سلسلہ کشمیر کا
اب تو کرنا ہی پڑے گا فیصلہ کشمیر کا
خونِ ناحق بہہ رہا ہے خطۂ کشمیر میں
خُون سے بدلے گا اک دن زاویہ کشمیر کا
جنگ جاری ہی رہے گی اب یہ تھمنے کو نہیں
جب تلک ہوتا نہیں ہے تصفیہ کشمیر کا
گزر رہی ہے جدائی جو تجھ پہ شاق تو دیکھ
کبھی کبھی تُو ورائے حد فراق تو دیکھ
مِری طلب نہ سہی، میرا اشتیاق تو دیکھ
عبارتوں سے پرے آ، ذرا سیاق تو دیکھ
جدا ہیں جسم ہمارے، جُدا ہیں رنگ و روش
تُو ان کو چھوڑ کے رُوحوں کا التصاق تو دیکھ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
الٰہی اپنے کرم سے عنایتیں کر دے
مِرے نصیبِ سخن کی ذہانتیں کر دے
میں لفظ و معنی کے ابہام سے نکل جاؤں
سخن شناس فضا کی سماعتیں کر دے
انا کی سرکشی، بس میں مِرے نہیں آتی
مِری جبیں کے مقدر عبادتیں کر دے
رہزن ہوا جو راہنما ہاتھ کٹ گئے
بیری یہ راستہ جو ہوا ہاتھ کٹ گئے
غارت گرانِ امن و سکوں کو ملی پناہ
انصاف کی اٹھی جو صدا ہاتھ کٹ گئے
تبدیلئ نظام کی خاطر ہوئے نثار
ہاں، انقلاب آ تو گیا، ہاتھ کٹ گئے
خار کو پھول کہو دشت کو گلزار کہو
اور اس جبر کو آزادیٔ افکار کہو
جن کے ہاتھوں میں علم اور نہ کمر میں شمشیر
وہ بھی کہتے ہیں ہمیں قافلہ سالار کہو
میں تو اک شوخ کے دامن سے کروں گا تعبیر
تم اسے شوق سے بت خانے کی دیوار کہو
مجبور کبھی کوئی قیادت نہیں ہوتی
ہوتی ہے تو پھر اس سے حکومت نہیں ہوتی
اک سجدۂ اخلاص کی فرصت نہیں ہوتی
اللہ کے بندوں سے عبادت نہیں ہوتی
اعمال پہ جو اپنے ندامت نہیں ہوتی
اس بات کا قائل ہے ہمیشہ سے زمانہ
قد بڑھانے کے لیے بونوں کی بستی میں چلو
یہ نہیں ممکن تو پھر بچوں کی بستی میں چلو
صبر کی چادر کو اوڑھے خوابگاہوں میں رہو
سچ کی دنیا چھوڑ کر وعدوں کی بستی میں چلو
جب بھی تنہائی کے ہنگاموں سے دم گھٹنے لگے
بھیڑ میں گم ہو کے انجانوں کی بستی میں چلو
فِکرِ فردا سے غافِل کسے ہوش ہے
ساری اُمّت فلسطیں پہ خاموش ہے
زُہد و تقویٰ عبادت میں مَدہوش ہے
ساری اُمّت فلسطیں پہ خاموش ہے
دَرد اِنسان سے عاری بنی مُعتکِف
حُکمِ باری، نبٌی سے ہوئی مُنحرِف
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
غمزدوں کے غم مٹانے کے لیے
مصطفیٰﷺ آئے زمانے کے لیے
آئیے چرچا نبیﷺ کا کیجیے
دولت کونین پانے کے لیے
آپؐ کی آمد ہی کافی ہے شہا
قبر کو روشن بنانے کے لیے
اچھا ہے ہم سے حال ہمارا نہ پوچھیے
کیا کیا ستم کیے ہیں گورا نہ پوچھیے
اس اشکِ غم نے دل میں لگا دی ہے کیسی آگ
مژگاں پہ ہے جو مثلِ ستارہ نہ پوچھیے
غم سہتے سہتے قوتِ گُفتار بھی گئی
کیا حال ہو گیا ہے ہمارا نہ پوچھیے
سخت وحشت میں اگر میں نے پکارا ہے مجھے
اس کا مطلب ہے ابھی میرا سہارا ہے مجھے
اس نے وحشت میں جب پکارا مجھے
خود کو دینا پڑا سہارہ مجھے
یہ زمیں گول ہے سو ممکن ہے
مل بھی سکتا وہ دوبارہ مجھے
جب پڑا الٹا پڑا پانسہ مری تدبیر کا
مِٹ نہیں سکتا کبھی لکھا کسی تقدیر کا
ہے خدا کے فضل پر موقوف پر موقوف ملنا دہر میں
منزلت،. عزت،. وجاہت،. مرتبہ توقیر کا
ہو سکے جتنا مِرے قاتل! چلا، خنجر چلا
چلتے چلتے آپ بھر جائے گا منہ شمشیر کا
وفا کے پیکروں کا جھمگٹا تھا
مگر پھر بھی جگر زخمی ہوا تھا
سرِ نوکِ سِناں اک سر سجا تھا
یہ منظر دیکھ کر دل کانپتا تھا
ہزیمت یوں اٹھانا پڑ رہی ہے
عدو کو شہر سارا جانتا تھا
کھنڈرات میں بھٹکتی صدا ہُوں تِرے بغیر
کیسے تجھے بتاؤں میں کیا ہوں ترے بغیر
کیسے ادا کروں تِری یادوں کا شکریہ
جِن کے سہارے زندہ رہا ہوں ترے بغیر
مدت سے ہجرِ یار میں جو خود ہے جل بجھا
میں راہ میں پڑا وہ دِیا 🪔 ہوں ترے بغیر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بادِ خِزاں میں سر پہ کرم کی گھٹا رہے
سُوئے سفر مدینے کی ٹھنڈی ہوا رہے
چلتا رہوں میں جانب منزل بصد خلوص
ہاتھوں میں میرے پرچمِ مہر و وفا رہے
تھک جاؤں تو مِرے بنیں بازو تِرے نشاں
تُو ساتھ ہو اگرچہ زمانہ خفا رہے
روش نہ حاکمِ اعلیٰ وہ اختیار کرے
جو مُنصفی کے تقدس کو تار تار کرے
ہے بدنصیبی کا یہ آخری مقام جہاں
عدو رذیل ہو اور عزتوں پہ وار کرے
جسے یہ لگتا ہے سب کچھ تو مل گیا ہے مجھے
وہ پاس بیٹھے خسارے مِرے شمار کرے
ہمیں محبت کرنے کا کوئی حق نہیں
کھانے کا بل ادا کرتے وقت
روٹیوں کی تعداد پوچھنے والوں کو محبت نہیں کرنی چاہیے
ہماری عمر میں محبت کرنے والوں کے لیے
خودکشی مستحب ہے
لیکن ہمیں کسی کی آنکھوں کی بجائے
آؤ کوئی تفریح کا سامان کیا جائے
پھر سے کسی واعظ کو پریشان کیا جائے
بے لغزشِ پا مست ہوں اُن آنکھوں سے پی کر
یوں محتسبِ شہر کو حیران کیا جائے
ہر شے سے مقدس ہے خیالات کا رشتہ
کیوں مصلحتوں پر اسے قربان کیا جائے
یوں برس پڑتے ہیں کیا ایسے وفاداروں پر
رکھ لیا تُو نے تو عشّاق کو تلواروں پر
کوچۂ یار سے، برباد بھی ہو کر نہ گیا
خاک اُڑ اُڑ کے مِری جم گئی، دیواروں پر
لے کے بوسے کسی بے رحم نے، ڈالے ہیں نشاں
کاکلیں چھُوٹی ہیں اِس واسطے، رُخساروں پر
نام ہی کیا نشاں ہی کیا خواب و خیال ہو گئے
تیری مثال دے کے ہم تیری مثال ہو گئے
سایۂ ذات سے بھی رم، عکس صفات سے بھی رم
دشتِ غزل میں آ کے دیکھ ہم تو غزال ہو گئے
کتنے ہی نشہ ہائے ذوق، کتنے ہی جذبہ ہائے شوق
رسمِ تپاکِ یار سے رو بہ زوال ہو گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو رحمت ہے مِرے رب کی کنارا ہی نہیں اس کا
خدا کا جو نہیں بنتا،۔ سہارا ہی نہیں اس کا
اگر نظر کرم نہ ہو کسی پر ربِ اکبر کی
تو سمجھو اس جہاں میں پھر گزارا ہی نہیں اس کا
جو رب کو خوش نہیں کرتا وہ سمجھو کچھ نہیں کرتا
چمکنے والا قسمت کا ستارا ہی نہیں اس کا
اپنے آغاز کو انجام میں پایا ہم نے
راز کیا پردۂ ابہام میں پایا ہم نے
کھو گیا تھا جو کبھی بھیڑ میں چہروں کی اسے
اپنی تنہائی کی ہر شام میں پایا ہم نے
ریت بھرتے رہے آنکھوں میں سرابوں کی سدا
عذر جینے کا اسی کام میں پایا ہم نے
سب مکر کی آلودہ نگاہوں سے بھرے ہیں
اے شہر! تِرے لوگ گُناہوں سے بھرے ہیں
میں جُرمِ مُحبت میں جو ماخوذ ہُوا ہوں
سب عدل کے ایوان گواہوں سے بھرے ہیں
کچھ ان کے عزائم بھی نہیں تجھ سے الگ تھے
پر کتنے مقابر ہیں کہ شاہوں سے بھرے ہیں
تری یادوں کا محشر کھینچتے ہیں
چلو پھر دن کا چکر کھینچتے ہیں
سویرا آن بیٹھا ہے سروں پر
اٹھو پھر شب کی چادر کھینچتے ہیں
ہماری پیاس مثل دشت و صحرا
ہم آنکھوں سے سمندر کھینچتے ہیں
بدنام گرچہ ہم ہوئے اپنے اصول میں
تجھ کو تو سرخرو کیا ہے عرض و طول میں
نیّت میں جب فتور ہو مقصد بے خانماں
بربادیاں تو ہوں گی پھر ایسے حصول سے
کوئی بھی ہم سے اس کا تدارک نہ ہو سکا
مصروف عمر بھر رہے کارِ فضول میں
یوں اداسی میں ملی ہے تِرے آنے کی خبر
جیسے مفلس کو ملے ایک خزانے کی خبر
مستئ عشق میں ڈُوبے ہیں تِرے دیوانے
اِن کو عُقبٰی کی، نہ اپنی، نہ زمانے کی خبر
دل تِرے ہاتھ پہ رکھ دیتا میں اک لمحے میں
کاش ہوتی جو مجھے دل کے ٹھکانے کی خبر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نور کی بارش، فضائیں نور، جھونکا نور کا
نور کی بستی میں ہے موسم سہانہ نور کا
مہبطِ انوار ہے نورِ خدا کا شہرِ نور
جوش پر رہتا ہے واں ہر وقت دھارا نور کا
گلشنِ طیبہ تِری فصلِ منور پر نثار
تجھ میں ہے ہر شاخ و جڑ، پتی و پتا نور کا
زندگی سادہ ورق پر اک حسیں تحریر ہے
اور یہ دنیا اسی تحریر کی تفسیر ہے
حق بجانب صرف ہم ہیں دوسرا کوئی نہیں
خود پسندی کی یہی ادنیٰ سی اک تصویر ہے
یہ بھی انداز تغافل اور تلون کی دلیل
جو بہت پیارا تھا اب وہ لائق تعزیر ہے
کیسے کیسے خواب سہانے چھوڑ آئے
سب چہرے جانے پہچانے چھوڑ آئے
بارش بن کر جو برسے تھے آنگن میں
ہم ساون کے وہ نذرانے چھوڑ آئے
چھوٹے سے مخدوش گھروندے کی خاطر
شیش محل جیسے کاشانے چھوڑ آئے
شاید ہمارے بخت میں کوئی خِضر نہیں
"منزل ہے، راستہ ہے، مگر راہبر نہیں"
خوں رو رہی ہے قوم، گریبان چاک ہیں
افسوس دُور دُور تلک چارہ گر نہیں
شاعر تُو اس جہاں کا مفکّر نہیں ہے کیا
کیا مرتبہ ہے تیرا، کیا تجھ کو خبر نہیں؟
مقدس لوگ
ہم نفرت کی پوجا کرنے والے ہیں
ہم کو بغض انا کے اونچے محل منارے پیارے ہیں
ہم نے علم، جہالت کے صندوق میں تالا ڈال کے رکھا ہے
ہم نے خود کو، اپنی سوچ کو جاگیروں میں گِروی رکھا ہے
ہم نے روشنی بانٹنے والے حرف بھی سُولی پر چڑھائے
ہم نے خیر کے بازو کاٹ کے قلم بنائے
دیوار کے ہوتے ہوئے در بیٹھ گیا ہے
بنیاد ہی ایسی تھی کہ گھر بیٹھ گیا ہے
سائے میں شجر کے تِری گلیوں کا مسافر
کیا حرج ہے کچھ دیر اگر بیٹھ گیا ہے
منزل کی تمنا میں ہر اک شخص چلا تھا
ہر شخص سر راہ گزر بیٹھ گیا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
برگ ہوں خشک سا مجھ کو بھی ہرا ہونا ہے
باغ سر سبز میں کھلنا ہے نیا ہونا ہے
میری وقعت نہ سہی جب وہ مرے گھر آئیں
لعل ہونا ہے مجھے رشک حرا ہونا ہے
میں مدینے کی حسیں یادوں میں ہوں کھویا ہوا
میرے محبوبﷺ کو تو میرا پتا ہونا ہے
کوئی ہنگامۂ ہستی کا پرستار بھی ہے
ورنہ کشتی بھی ہے ساحل بھی منجدھار بھی ہے
ہو گئیں میری تباہی پہ وہ آنکھیں نمناک
کون جانے کہ یہی جیت مِری ہار بھی ہے
باغباں تُو بھی اسے چشمِ حقارت سے نہ دیکھ
زینتِ صحنِ چمن گُل ہی نہیں خار بھی ہے
اب نہ آئے گا کبھی روٹھ کے جانے والا
عمر بھر خط وہی پڑھیے گا سرہانے والا
وہ مراسم بھی نبھاتا ہے تو رسموں کی طرح
آ گیا اس کو بھی دستور زمانے والا
یہ جدا ہونے کی رت ہے نہ دکھاؤ جی کو
ذکر چھیڑو نہ کوئی اگلے زمانے والا
جب سے نظر سے دور وہ پیارے چلے گئے
وہ شام وہ سحر وہ نظارے چلے گئے
رسم وفا نہ پیار کی پہلی سی ریت ہے
جانے کہاں وہ پریت کے دھارے چلے گئے
ہم کھیلتے ہی رہ گئے طوفان و موج سے
آ آ کے پاس دور کنارے چلے گئے
عشق کے جادوگر
چمن میں عشق کے جادوگر چھپے رہتے ہیں
نکل آتے ہیں فوراً حسینہ دیکھ کر
ان کی باتیں معصول دل پر سحر کا کام کر دیتی ہیں
ان کی نظریں حسین دوشیزہ کو اسیرِ دام کر لیتی ہیں
پھولوں کی مہک، چاند کی چمک، ستاروں کی دمک
اس پر ایک عجیب سا کیف طاری کر دیتی ہے
وسعت دامان دل کو غم تمہارا مل گیا
زندگی کو زندگی بھر کا سہارا مل گیا
ہر دل درد آشنا میں دل ہمارا مل گیا
پارہ پارہ ہو چکا تھا پارا پارا مل گیا
ہم کہ میخانے کے وارث تھے ہیں اب تک تشنہ لب
چند کم ظرفوں کو صہبا کا اجارا مل گیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پھر آ گیا ہوں شہر رسول انامﷺ میں
ہر پل گزر رہا ہے سجود و قیام میں
اوڑھی ہوئی ہے گلیوں نے خوشبو کی اوڑھنی
کیسا غضب کا حسن ہے اس ڈھلتی شام میں
دیوار و در کے ہونٹوں پہ صلی علیٰ کا ورد
مصروف ہر بشر ہے درود و سلام میں
ہے وہ دشمن تو اب یار ہو جائے گا
دوستی سے ملو، پیار ہو جائے گا
موجیں طوفاں کی شرمندہ ہونے لگیں
بیڑا ڈوبا نہیں، پار ہو جائے گا
اس کے دل میں جو بُوئے وفا ہی نہیں
وعدہ کرنا بھی بے کار ہو جائے گا
آج اس سے ملو صورت احباب ملے گا
کل خواب کی تعبیر میں بھی خواب ملے گا
یہ سوچ لیں پہلے سے دعا مانگنے والے
پانی کی ضرورت ہے تو سیلاب ملے گا
وہ سرد ہوا شہر میں آئے گی دکھوں کی
آنسو بھی مِری آنکھ میں برفاب ملے گا
کہیں ہے داغ ناکامی کہیں ہے خون ارماں کا
ہمارا دل مرقع بن گیا ہے یاس و حرماں کا
جہاں والوں پہ میں احسان کر کے بھول جاتا ہوں
مِرے اخلاق کو چمکا رہا ہے نقش نسیاں کا
علائق میں الجھ کر فرصت نظارہ کھو بیٹھا
نہایت دید کے قابل تھا منظر بزم امکاں کا
درونِ شہرِ تمنا کسی کو ہار آئے
چراغِ کشتہ کی لَو کو وہاں اتار آئے
فنا کے سانپ ہیں جنسِ ہُنر سے ناواقف
چلے تو کیچلی اپنی وہاں اُتار آئے
دیارِ جسم ہے اُلفت کے دائروں سے پرے
شعارِ شوقِ بدن میں نہ یہ حِصار آئے
لکھ لکھ کے یار ہاتھ ہمارے پگھل گئے
ہم سے جو سیکھتے تھے وہ آگے نکل گئے
آنکھوں کا رنگ ہو یا مِری شاعری کا رنگ
سب کچھ بدل گیا مِرا، جب تم بدل گئے
سب لوگ لے کے آئے تھے اعمال رب کے پاس
ہم اپنے رب کے پاس بھی لے کر غزل گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وسعتِ خیر ہے اتنی نہ سنبھالی جائے
بانٹتا جائے جدھر انؐ کا سوالی جائے
ان سے الفت کے سبب چن دیا جاؤں جس میں
رب وہ رحمت بھری دیوار بنا لی جائے
رہے پوروں پہ سدا صلی علیٰ کی تسبیح
کہ کفن میں بھی مِرا ہاتھ نہ خالی جائے
جب کبھی یاد تِری مجھ سے بچھڑ جاتی ہے
سانس تک چلتی ہوئی میری اکھڑ جاتی ہے
میں اسی واسطے باتیں نہیں کرتی تجھ سے
بات جب بڑھتی ہے پھر بات بگڑ جاتی ہے
مہرباں تیرا تصور نہ ہو جب تک مجھ پہ
جو بھی تصویر بناؤں میں بگڑ جاتی ہے
زخم کو مات کیوں نہیں کرتے
درد خیرات کیوں نہیں کرتے
راستے سائیں سائیں کرتے ہیں
راستے بات کیوں نہیں کرتے
پیار کرتے ہو پاگلوں کی طرح
حسب اوقات کیوں نہیں کرتے
ہم گئے پہلا سا وہ مصر کا بازار نہ تھا
کتنے یوسف تھے مگر کوئی خریدار نہ تھا
وائے پہلا سا وہ رنگِ درِ دلدار نہ تھا
دار تھی کوئی بھی منصور سرِ دار نہ تھا
دورِ عشرت میں سبھی یار تھے غم میں لیکن
ماسوا دل کے مِرا کوئی بھی غمخوار نہ تھا
ٹھہر گیا مِرے اشکوں کا قافلہ کب کا
میں ہو چکا ہوں تِرے غم سے آشنا کب کا
اب اپنے چہرے پہ وہ تازگی نہ رونق ہے
اُتر چکا ہے ہر اک رنگِ خوش نما کب کا
بھٹکتا رہتا ہوں اب خواب کے جزیرے میں
گزر چکا ہے ان آنکھوں سے رت جگا کب کا
اس چمن میں آشیاں اپنا بنا سکتے نہیں
کھول کر دل جس چمن چہچہا سکتے نہیں
خوف سے گلچیں کے غنچے ہیں چمن میں دم بخود
مسکرا سکتے ہیں، لیکن کھل کھلا سکتے نہیں
باغباں سے کر لیا صیّاد نے کچھ ساز باز
اہلِ گُلشن خیر اب اپنی منا سکتے نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کس منہ سے شکر کیجیے پروردگار کا
عاصی بھی ہوں تو شافع روزِ شمار کا
گیسو کا ذکر ہے تو کبھی روئے یار کا
یہ مشغلہ ہے اب مرا لیل و نہار کا
چلنے لگی نسیمِ سحر خلد میں ادھر
دامن اِدھر بلا جو شہِ ذی وقار کا
مشکلیں بڑھتی گئیں ہر سحر و شام کے ساتھ
پھر بھی کھیلا کیے ہم گردشِ ایام کے ساتھ
روز افزوں ہی رہا حوصلہ و عزمِ سفر
منزلیں دور ہی ہوتی گئیں ہر گام کے ساتھ
آ کے اے برق! مِرا خرمنِ ہستی تو جلا
کتنی نادان کہ الجھی ہے در و بام کے ساتھ
قوم در بدر ہے، مجھے جب سے ہوش ہے
بے خبر راہبر ہے، مجھے جب سے ہوش ہے
دھوپ کی صورت کبھی دیکھی نہیں میں نے
ابر میں امبر ہے، مجھے جب سے ہوش ہے
میں نے کب کیا ہے بھلا وقت کا حساب
وہ مِری دلبر ہے، مجھے جب سے ہوش ہے
ہزار خاک کے ذروں میں مل گیا ہوں میں
مآل شوق ہوں آئینہ ⌗ وفا ہوں میں
کہاں یہ وسعت جلوہ کہاں یہ دیدۂ تنگ
کبھی تجھے کبھی اپنے کو دیکھتا ہوں میں
شہید عشق کے جلوے کی انتہا ہی نہیں
ہزار رنگ سے عالم میں رونما ہوں میں
حرام کو بھی اِک دم حلال کرتا ہے
کبھی جو دل نئی کوئی مجال کرتا ہے
ہزار تشنہ سی حسرتوں کے بوجھ تلے
یہ جو دھڑکتا ہے، 💓دل کمال کرتا ہے
یہ دل بھی تو رہتا ہے عجب سے مخمصے میں
جواب گھڑتا ہے، خُود ہی سوال کرتا ہے
ظلمتوں میں ازسرِ نو کیوں بلاتے ہو مجھے
مہربانوں کس لیے اتنا ستاتے ہو مجھے
راستے میں نے دکھائے ہیں اجالوں کے تمہیں
نقش ہوں میں روشنی کا کیوں مٹاتے ہو مجھے
قافلوں کو منزلوں کی سمت کرتا ہوں رواں
بے جہت چلنے کی باتیں کیوں سناتے ہو مجھے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نہ چار سُو نہ کہیں چرخِ ہفتمیں سے مِلا
خِرد کو نُکتۂ توحید شاہِ دیںﷺ سے ملا
جہاں کی دانش و حکمت میں یہ کمال کہاں
شُعورِ زیست مدینے کی سر زمیں سے ملا
بھٹک رہی تھی حقیقت کی جُستجو میں نظر
درِ اِلٰہ مجھے راہِ شاہِ دیںﷺ سے ملا
جو تیرے عہد میں پتھر کا آدمی ہوتا
کسی بشر کو نہ احساسِ زندگی ہوتا
متاعِ لفظ و بیاں دل کے پاس ہوتی تو
مِرے فسانے کا عنواں کچھ اور ہی ہوتا
ملا ہوں خود کو میں تنہا ہر اک منزل میں
کوئی رفیقِ سفر تھا تو ساتھ بھی ہوتا
کسی کی راہنمائی قبول کیا کرتے
ہمارے عہد میں آ کر رسول کیا کرتے
جو دستکوں کے لیے دل کے در تلک آیا
ہم اس کرم کا کوئی عرض و طول کیا کرتے
کسی کی یاد میں رونا تو اک فریضہ تھا
مری کتاب کے مرجھائے پھول کیا کرتے
مفت الزام بغاوت مرے سر رکھتے ہیں
وہ جو تاریخِ گلستاں پہ نظر رکھتے ہیں
ہم نے گھنگھور اندھیروں میں گزاری ہے حیات
ہم بھی اب حسرتِ دیدارِ سحر رکھتے ہیں
آج انہیں صاحبِ کردار کہا جاتا ہے
مرضئ وقت کے قدموں پہ جو سر رکھتے ہیں
اپنا محرم جو بنایا تجھے میں جانتا ہوں
مجھ سے منہ پھر کیوں چھپایا تجھے میں جانتا ہوں
تو اگر بھولا تو بھولا مرا صاحب مجھ کو
میں نہیں تجھ کو بھلایا تجھے میں جانتا ہوں
سب زمانہ میں پھرا ڈھونڈھتا محبوب کوئی
نہیں تجھ سا نظر آیا تجھے میں جانتا ہوں
تو کیا سرہانے نیا کوئی قہقہہ اگا ہے
جو دکھ اچانک ہی پائنتی سے لگا کھڑا ہے
زمین پایوں سے کھاٹ کے چڑھ رہی ہے ایسے
کہ جیسے سارا فلک مجھی پر جھکا ہوا ہے
عصا کو دیمک نگل رہی ہے میں جان بیٹھا
کمر سے پہلے ہی حوصلہ ٹوٹنے لگا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زمینِ شعر پہ اک خطِ نعت کھینچا تھا
پھر اُس زمیں کو فلک ہوتے میں نے دیکھا تھا
تھی ایک رات مِری آنکھ نور سے معمور
اس ایک رات نبیﷺ کا سراپا سوچا تھا
خدا احد ہے سو اس کو احد سمجھتے ہیں
امینِ وحئ خدا نے یہی بتایا تھا
صحن مقتل میں ہر اک زخم تمنا رکھ دو
اور "قاتل" کا نیا نام "مسیحا" رکھ دو
اب تو رسوائی کی حد میں ہے میری تشنہ لبی
اب تو ہونٹوں پہ دہکتا ہوا شعلہ رکھ دو
کتنی تاریک ہے شب میرے مکاں کی یاروں
ان منڈیروں پہ کوئی چاند سا چہرہ رکھ دو
آئیں، ہمارے واسطے بیٹھیں، دعا کریں
ہونا تھا جو بھی ہو گیا، اب اور کیا کریں
اب رات بھر یہ سسکیاں لیتے ہیں کس لیے
کس نے کہا تھا آپ کو ہم سے دغا کریں
ہم کو بھی کچھ تو خواہشیں اپنی بتائیں ناں
ہم کیا کریں جو آپ کو اچھا لگا کریں
خزانہ
یہ میری دولت، یہ میری دولت
جو میری محنت کا ہے نتیجہ
جو میری عزت کا ہے ذریعہ
جو میری شہرت کا ہے وسیلہ
وہ مثل اولاد جس کو چاہا
یہ میری دولت، یہ میری دولت
وسعت نہیں نظر میں ہے دل اور تنگ ہے
آئینۂ خیال پہ صدیوں کا زنگ ہے
سر پہ گناہگار کے چادر ہے خاک کی
مٹّی میں گل کھلاتی ہوئی ہر اُمنگ ہے
پتھر برس پڑیں نہ کہیں آسمان سے
ہِلتی ہوئی زمیں میں غضب کی ترنگ ہے
مجھے سفر میں ہے خدشہ بدن پگھلنے کا
خیال چھوڑ دے تو میرے ساتھ چلنے کا
عجیب رات ہے کٹتی نہیں کسی صورت
لگے ہے اب کوئی سورج نہيں نکلنے کا
لہو لکھے گا تمہاری بھی موت کا فرمان
تماشہ دیکھ رہے ہو جو سر اچھلنے کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہر گھڑی نور کی بارش میں نہایا ہوا ہے
جس نے ہونٹوں پہ درودوں کو سجایا ہوا ہے
کتنی صدیوں سے ثمر بار بھی ہے تازہ بھی
تُو نے ہاتھوں سے جو اک پیڑ لگایا ہوا ہے
اے حسینوں کے حسیں، اے شہِ فیاض دِلاں
اک بھکاری تِرےﷺ دیدار کو آیا ہوا ہے
کسی نے مجھ کو مِرے نام سے پکارا ہے
یہ اک گماں بھی یقیناً بڑا سہارا ہے
سحر نصیب ہو اس رات کو کبھی لیکن
ابھی تلک تو مِری طرح بے سہارا ہے
کسی کی بزم سے اٹھنا محال ہے لیکن
وگرنہ اتنا تغافل کسے گوارا ہے
تعلق توڑ کر اُس کی گلی سے
کبھی میں جُڑ نہ پایا زندگی سے
خدا کا آدمی کو ڈر کہاں اب
وہ گھبراتا ہے کیول آدمی سے
مِری یہ تشنگی شاید بُجھے گی
کسی میری ہی جیسی تشنگی سے
جب نہ ساتھی ہو کوئی بگڑی ہوئی تقدیر کا
اے دلِ مایوس! دامن تھام لے تدبیر کا
کر رہا ہوں اس لیے میں کعبۂ دل کا طواف
عکس ہے اس آئینے میں آپ کی تصویر کا
تیرے در کی خاک دنیا میں میسر ہو جسے
جیتے جی طالب نہ ہو وہ پھر کسی اکسیر کا
شمع محفل میں جلے یا جلے پروانے سے
فرق کرتی نہیں پروانے سے پروانے میں
آپ ناراض ہوئے، کوئی سبب تو ہو گا
کیا کوئی مجھ سے خطا ہو گئی انجانے میں
حل طلب بات ہوئی ہے دونوں کی معمے کی طرح
فرق کوئی دیوانے میں فرزانے میں
مزاج عشق کو جس نے قلندرانہ کیا
کلام جس سے کیا اس نے عارفانہ کیا
ستم کی دھوپ نے یہ کار معجزانہ کیا
ہماری راہ میں شفقت کا شامیانہ کیا
وہ جس نے دل پہ مِرے وار قاتلانہ کیا
اسی کو میں نے کبھی جان سے جدا نہ کیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سفر وہ نُور کا، مجھ کو بھی نُور کرتا ہُوا
میں جا رہا ہوں ستارے عبور کرتا ہوا
ازل کے جلوے میں ہوتی ہوئی نمُو میری
نیا نیا سا میں خُود میں ظہور کرتا ہوا
میں بارگاہِ نبوّتؐ میں سر جُھکائے ہوئے
میں اپنے ہونے پہ اس پل غرور کرتا ہوا
داغ جلتا ہے مِرے سینے میں
دل پگھلتا ہے مرے سینے میں
شیشہ و سنگ مقابل آئے
کچھ چٹختا ہے مرے سینے میں
رات بھر راز خرد سر جنوں
دل اگلتا ہے مرے سینے میں
اس چمن کا عجیب مالی ہے
جس نے ہر شاخ کاٹ ڈالی ہے
دن اجالا گنوا کے بیٹھ گیا
رات نے روشنی چرا لی ہے
غم کی عصمت بچی ہوئی تھی مگر
وقت نے وہ بھی روند ڈالی ہے
کوئی مکاں ہو تو خود کو مکیں کریں ہم لوگ
کسی قیاس پہ کیسے یقیں کریں ہم لوگ
تُو لا زوال نہیں ہے، فنا کی زد میں ہے
سو، ترک کس لیے دنیا و دیں کریں ہم لوگ
پلٹ کے دشت سے جانا محال ہے اپنا
اگرچہ لاکھ غمِ واپسیں کریں ہم لوگ
غزہ
وہ پھر آئیں گے
تازہ دم ہو کر
ادھیڑ دیں گے تمہارے دریدہ بدن
گولیوں کی بارش سے
تم پھر سو جاؤ گے
اور وہ پھر آئیں گے
تمہارے قصر آزادی کے معماروں نے کیا پایا
جہاں بازوں کی بن آئی جہاں کاروں نے کیا پایا
ستاروں سے شب غم کا تو دامن جگمگا اٹھا
مگر آنسو بہا کر ہجر کے ماروں نے کیا پایا
نقیب عہد زریں صرف اتنا مجھ کو بتلا دے
طلوع صبح نو برحق مگر تاروں نے کیا پایا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نعت پڑھنے میں جو نمناک گلو ہوتا ہے
نامِ نامیؐ پہ یہ لفظوں کا وضو ہوتا ہے
تزکیہ روح کا کرتی ہے فضا مکّے کی
چاک سینے کا مدینے میں رفو ہوتا ہے
عشق کی شرح میں ہے آپؐ کا اُسوہ لاریب
نصِّ قرآن میں جو ’’واعتصموا‘‘ ہوتا ہے
خوشبو ہمارے پیار کی اس تک پہنچ گئی
تصویر اعتبار کی اس تک پہنچ گئی
آواز دے رہا تھا کوئی دُور سے مجھے
تنہائی انتظار کی اس تک پہنچ گئی
کل شام ہی تو اس سے ملی تھی مری نظر
شِدت مِرے خمار کی اس تک پہنچ گئی
جو تعلق کی بھی تعظیم سے واقف نہیں ہے
وہ محبت کی ابھی میم واقف نہیں ہے
زر کے پیمانے سے انسان کو جو ناپتا ہے
ہائے وہ عشق کی تعلیم واقف نہیں ہے
یہ اصولوں میں روایات کا پابند ہے سو
دل زمانے کی ترامیم واقف نہیں ہے
بقا کی چاہ میں تو دیکھ بے مکان نہ ہو
زمین تیری حقیقت ہے آسمان نہ ہو
رہ نجات میں منزل کی جستجو کس کو
یہ وہ سفر ہے کہ جس میں کبھی تھکان نہ ہو
یہاں سبھی کی رسائی تو غیر ممکن ہے
یہ تجربات کی محفل ہے بد گمان نہ ہو
دل پریشاں ہی رہا دیر تلک گو بیٹھے
اپنی زلفوں کو بنایا ہی کیے وہ بیٹھے
اپنی صورت پہ کہیں آپ نہ عاشق ہونا
بے طرح دیکھتے ہو آئینہ تم تو بیٹھے
زلف الجھی ہے تو شانے سے اسے سلجھا لو
شام کا وقت ہے ہو کوستے کس کو بیٹھے
تکلم یار سے بیتے دنوں کا
یار فرقی زمانہ ہوا
ہم نے جب بچپنے کو پرانی کتابوں کی مانند
ردی میں بیچا
تو ہنستا ہوا بچپنا خامشی سے
بہت دیر تک ہم کو تکتا رہا
یاد ہے نا تمہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے حال دل سے واقف و آگاہ لے خبر
ہر ہر قدم پہ بیٹھے ہیں بدخواہ لے خبر
فریاد کوئی سنتا نہیں آہ لے خبر
*اے شافعِ اممؐ شہِ ذی جاہ لے خبر*
*للہ لے خبر مری، للہ لے خبر*
مجھ پر الم کی فوج ہے حاوی بہ شدّ و مد
وہ وقت لوگ وہ پہلی سی چاہتیں نہ رہیں
ہماری جھولی میں پہلی سی راحتیں نہ رہیں
راس آ گیا جب سے سکوتِ تنہائی
وہ رتجگے، وہ محافل، وہ ساعتیں نہ رہیں
بدلتے وقت نے ہر آرزو کُچل ڈالی
جنم جو لیتی تھیں دل میں وہ خواہشیں نہ رہیں
چولہا چادر چار دواری والی عورت
بھرے پرے مردوں میں خالی خالی عورت
رنگ، رکھیل ہے کھیل ہے اور بہلاوہ ہے
نامردوں کو ہولی اور دیوالی عورت
ماں ہے بہن ہے بیٹی ہے اور بیوی ہے
مان سمان میں قدرت نے ہے ڈھالی عورت
جو نہیں جانتا مفہوم محبت کیا ہے
اس کی نظروں میں میرے پیار کی قیمت کیا ہے
چڑھتے سورج کا پجاری ہے ہر ایک شخص یہاں
کیا اسے علم کے احساس کی دولت کیا ہے
ہو سکے تو کبھی اس کی بھی وضاحت کر دے
میری جانب سے تِرے دل میں کدورت کیا ہے
کب بات وہی دل کی سجن بات کرو گے؟
کب رات محبت سے بھری رات کرو گے؟
دیکھو گے مجھے جب بھی ملاقات کرو گے
پھر یوں نہ کبھی تم یہ سوالات کرو گے
کب روح مِری پیار سے تم پاک کرو گے؟
کب پیار کی اے یار! وہ برسات کرو گے؟
حدیث دلبراں ہے اور میں ہوں
جہاں اندر جہاں ہے اور میں ہوں
مداوائے غم فرقت نہیں کچھ
بس ان کی داستاں ہے اور میں ہوں
نہ ہمدم ہے نہ کوئی ہم نواں ہے
دل اپنا راز داں ہے اور میں ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھ پہ جب رب کی عنایت ہو گئی
نعت کہنے کی ہدایت ہو گئی
دُور دنیا کی محبت ہو گئی
آپؐ سے حاصل جو نسبت ہو گئی
ابتداء آدمؑ سے ہو کر دیکھیے
ختم آقاﷺ پر نبوت ہو گئی
شہر بے مہر میں ملتا کہاں دلدار کوئی
کاش مل جاتا ہمیں مجمع اغیار کوئی
چیر دے قلب زمیں توڑ دے زنجیر زماں
چھیڑ اب ایسا فسانۂ دل نادار کوئی
نالۂ دل سے جگر ہوتا ہے چھلنی یا رب
صبر کرتی ہوں تو چل جاتی ہے تلوار کوئی
اِسی میں ہجر کے شام و سحر ٹھکانے لگے
جب آئینے کے نئے خال و خد بنانے لگے
طلب کی راہ میں شامل تھی خود پسندی بھی
میں تیری سمت چلا پاؤں لڑکھڑانے لگے
میں سو رہا تھا تو آنکھوں میں کوئی خواب نہ تھا
میں اُٹھ گیا تو تسلسل سے خواب آنے لگے
ہیں منتظر آنکھیں کوئی اک خواب تو آئے
ساحل نہیں آتا ہے تو گرداب تو آئے
صحرا کے خد و خال سے کھیلوں میں کہاں تک
رستے میں کوئی خطہ شاداب تو آئے
کیا فکر جو پیکر سے وہ مہتاب نہیں ہے
پہنے ہوئے پیراہن مہتاب تو آئے
مِرے ملک کی زمیں پر یہ نظام چل رہا ہے
کہیں رقص ہو رہا ہے، کہیں جام چل رہا ہے
تُو غزل کی گائیکہ ہے میں غزل کا رائٹر ہوں
تِرے کام کی بدولت مِرا کام چل رہا ہے
مئی جون آ گیا تو مِرے دل سے ہُوک اُٹھی
یہاں کھا رہے ہیں برگر، وہاں آم چل رہا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سلام فاتح خیبرؑ کے لالؑ کو پہنچے
حسینؑ یعنی محمدﷺ کی آلؑ کو پہنچے
حیاتِ سرمدی آئی تمہارے حصے میں
تمہارے عزم سے باطل زوال کو پہنچے
جنابِ حُر بھی ہوئے سرخرو شہادت سے
بفیضِ سبطِؑ پیمبرﷺ کمال کو پہنچے
یہ ندی کیوں اس قدر خدشے میں ہے
کیا کوئی طوفاں کہیں رستے میں ہے
جس کی پروازوں کے تھے چرچے بہت
وہ پرندہ 🕊 آج کل پنجرے میں ہے
بند جب سے ہو گئی میری گھڑی
کتنا سناٹا مِرے کمرے میں ہے
کِس تیقّن تلک گئے ہم لوگ
پھر بھی اے دل بھٹک گئے ہم لوگ
مثلِ دریا ملی تھی سیرابی
مثلِ ساحل بلک گئے ہم لوگ
یوں ہی اک دن سفر کِیا آغاز
یوں ہی اک روز تھک گئے ہم لوگ
آتشِ عشق سے اک حشر بپا ہو جانا
اک نظر دیکھتے ہی ان پہ فدا ہو جانا
رات دن سوچنا ان کو ہے عبادت میری
کیسے ممکن ہے عبادت کا قضا ہو جانا
جن کو ہاتھوں سے تراشا ہو بہت محنت سے
ظلم ہے ایسے بتوں کا بھی خدا ہو جانا
دریا گلی میں شام
کہساروں پر دیے جل اٹھے جیسے جاگے پریت
پگدنڈی پر اک چرواہا گاتا جائے گیت
بادل کی چلمن سے جھانکے سپنوں کا اک جال
جال کے جیسے ہوا میں اڑتے اک ناری کے بال
گھور اندھیرا ہریالی پر کاڑھے اپنا نام
رین بسیرا ڈھونڈ رہی ہے جلتی بُجھتی شام
میرے غم کی حقیقت کا زمانہ راز داں کیوں ہو
نہاں ہے راز جو دل میں وہ اشکوں سے عیاں کیوں ہو
سکون مستقل کیوں ہو، نشاط جاوداں کیوں ہو
جو دل میں درد ہے وہ باعث تسکین جاں کیوں ہو
چمن میں جس طرف دیکھو نشیمن ہی نشیمن ہیں
ٹھکانا برق کا میری ہی شاخ آشیاں کیوں ہو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہو اگر آپﷺ کا فرمان مدینے میں رہے
"مجھ خطار کار سا انسان مدینے میں رہے"
بادشاہوں کو محل اپنے مبارک ہوں مگر
دو جہاں کا ہے جو سلطان مدینے میں رہے
ابر رحمت کا برستا ہے یہاں پر پیہم 🌦
کیوں کہ خود عاشقِ یزدان مدینے میں رہے
حکم نامہ
سو اب یہ حکم آیا ہے
کہ اس بے فیض موسم
بے اماں صحرا میں رھنا ہے
سلگتی دھوپ اور بنجر پہاڑوں کو
شبستاں کی طرح
جنت کی مانند ہی سمجھنا ہے
خلوص رنگ سے رنگیں ہو آدمی کا لباس
یہی ہے اصل میں انساں کی کی زندگی کا لباس
ہم اپنی پیاس کا رونا بھی اب رو نہیں سکتے
لبوں سے سب کی جھلکتا ہے تشنگی کا لباس
یہ دشمنوں کا حربہ ہے ذرا خیال رہے
ملاتے ہاتھ پہن کر ہیں دوستی کا لباس
اک آہ جگر سوز دبی ہے تن میں
بھڑکے تو جہاں سارے کو شعلہ ہی بنا دے
اک چیخ ابھر آئی ہے گر لب پہ ہمارے
ڈر ہے تِرے پہلو میں قیامت نہ اٹھا دے
جلتی ہوئی حسرت کا نظارہ ہے مرا دل
توحید کے قرآن کا پارہ ہے مِرا دل
وطن کا علَم آؤ مل کر اٹھائیں
اخوّت، محبت کو آگے بڑھائیں
بڑا خوبصورت ہے پرچم ہلالی
چمن کی شرافت ہے پرچم ہلالی
خدایا! اسے نظرِ بد سے بچائیں
ہماری خوشی ہو وطن کی خوشی پر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بھنور سے دور قریب نشاں کرے گا کون
میرے سفینۂ دل کو رواں کرے گا کون
محافظت کو اگر تُو نہ آئے گا میری
عدو کے وار کو پھر رائیگاں کرے گا کون
نہ دے گا چاند ستاروں کو تُو اجازت تو
سامنے تھا وہ مگر دید وغیرہ نہیں کی
اب کے آنکھوں نے کوئی عید وغیرہ نہیں کی
یُوں رکھا مان ہمیشہ تِرے بُہتانوں کا
ہنس کے چُپ ہو گئے، تردید وغیرہ نہیں کی
خیر ہو، آج طبیعت تری ناساز ہے کیا ؟
آج مجھ پر کوئی تنقید وغیرہ نہیں کی
ہماری حسرت وطن کو اپنی محبتوں سے نکھار دیں گے
نئی امیدوں کی روشنی سے ہم اس کی زُلفیں سنوار دیں گے
یہی وفاوں کا رہگزر ہے یہی ہمارے سفر کی منزل
جو قرض مٹی کا سر ہے اپنے وہ قرض سر سے اتار دیں گے
تِری ہی خاطر لٹا چکے ہیں ہزاروں تارے ہزار سورج
اگر ضرورت پڑی دوبارہ تو اپنی جانوں کو وار دیں گے
نکل سکتے نہیں اب منظروں سے
نکل تو آئے ہیں اپنے گھروں سے
سبھی کردار ساکت ہو گئے ہیں
کہانی چل رہی ہے منتروں سے
ہماری خاک ہی میں مسئلہ ہے
شکایت کچھ نہیں کوزہ گروں سے
اعلان کر رہا ہوں کہ ہوشیار، اک طرف
معصوم اک طرف ہوں، ریا کار اک طرف
دنیا میں کربلا سے بڑا واقعہ نہیں
حُبدار اک طرف ہوئے غدّار اک طرف
یہ کس نے آ کے صحنِ حرم میں قدم رکھا
در اک طرف کو ہو گیا، دیوار اک طرف
زندگی ان ٹوٹتے لمحوں میں کیا دے جائے گی
دھند میں لپٹے گھروندے کا پتہ دے جائے گی
چھین لے گی میری آنکھوں سے یہ خوابوں کی ردا
یاد تیری آئے گی پھر رت جگا دے جائے گی
یہ شب مہتاب بھی تیرے تبسم کی طرح
سوچ کو میری شکستہ زاویہ دے جائے گی
رُت بدلتی ہے، بدلتا نہیں منظر سائیں
اب کہاں جائے بتا تیرا قلندر سائیں؟
اک مِرے نام نہیں تیری سخاوت ورنہ
جگمگاتا ہے کرشمہ تِرا در در سائیں
شہر کا شہر ہُوا جاتا ہے کیسے سیراب
کون آیا ہے یہاں لے کے سمندر سائیں
لاکھ ناداں ہیں مگر اتنی سزا بھی نہ مِلے
چارہ سازوں کو مِری شامِ بلا بھی نہ ملے
حسرت آگیں تو ہے ناکامیٔ منزل، لیکن
لطف تو جب ہے کہ خود اپنا پتا بھی نہ ملے
کچھ نگاہوں سے غمِ دل کی خبر ملتی ہے
ورنہ ہم وہ ہیں کہ باتوں سے ہوا بھی نہ ملے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو لوگ طاعت خیرالانام کرتے ہیں
وہی تمیزِ حلال و حرام کرتے ہیں
حسیں نظر ہو تو ہر چیز بات کرتی ہے
شکستہ آئینہ خآنے بھی کام کرتے ہیں
دلوں میں جن کے ہیں جذبات سرفرازی کے
صلیب و دار بھی ان کو سلام کرتے ہیں
سچ تمہارا دشمن ہے
کاٹو میرے ذہن کو آ کر
لاؤ چھری، خنجر، تلواریں
یہ ذہن تمہارا دشمن ہے
یہ ذہن تمہاری سوچ کے
بند کواڑوں پہ اکثر
کوندا بن کے چمکتا ہے
اولاد علیؑ ہیں یہ ڈرتے نہیں ہیں
منافق کبھی ساتھ رکھتے نہیں ہیں
ملا ہے ہمیں کربلا سے یہ منصب
نبھاتے ہمیشہ ہیں، ٹلتے نہیں ہیں
یہ اعوان ہونا بھی مشکل بڑا ہے
یہاں سر بھی کٹتے ہیں جھکتے نہیں ہیں
جو تیر آج تک نہ کمانوں پہ آئے ہیں
جب زہر میں بجھے تو نشانوں پہ آئے ہیں
ہیں در بدر، پہ اب کے نہیں تابِ گمرہی
کچھ گیت بن کے گُنگ زبانوں پہ آئے ہیں
صیاد! تیرے دامِ محبت کی خیر ہو
بیخود شکار خود ہی نشانوں پہ آئے ہیں
باہر تو کر رہا ہوں میں آرائشیں بہت
اندر ہیں پر مکان کے آلائشیں بہت
تو ہے کہ تیرے ساتھ ہیں آسائشیں بہت
میں ہوں کہ میرے ساتھ مِری خواہشیں بہت
نقش و نگار کیا یہاں دیوار و در نہیں
شاید کہ اس مکاں پہ رہیں بارشیں بہت
یہاں اپنا بنا کر ہی سبھی انکار کرتے ہیں
چلو ہم بھی محبت کا ہی کاروبار کرتے ہیں
بھروسہ کیسے کر پاؤ گے تم بے دین لوگوں کا
یہاں پر سب منافق ہیں کھلا اقرار کرتے ہیں
بتاتے ہیں سبھی منزل کا الٹے ہی طریقے سے
بھلا ایسے ستم بھی دین کے غمخوار کرتے ہیں؟
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
توحید کا دِیا ہے، اجالا علیؑ کا ہے
امکان کی حدوں پہ اجارہ علی کا ہے
روزِ الست جس نے کہا تھا علی علی
اس کی زباں پہ آج بھی نعرہ علی کا ہے
انگلی پکڑ کے جس کی چلے فخرِ انبیاء
منبع ہدایتوں کا وہ بابا علی کا ہے
زمین و آسماں بدلے ہوئے ہیں
وہ جب سے مہرباں بدلے ہوئے ہیں
یقیں، وہم و گُماں بدلے ہوئے ہیں
یہاں سب این و آں بدلے ہوئے ہیں
ہوائے تُند جب سے چل پڑی ہے
پرندے آشیاں بدلے ہوئے ہیں
جس سے بندھے تھے دونوں، وہ غم نہیں رہے ہیں
تم، تم نہیں رہے ہو، ہم، ہم نہیں رہے ہیں
لمحوں کے پیڑ پر ہیں، کچھ پھول درد و غم کے
جیون میں اب خوشی کے موسم نہیں رہے ہیں
راہوں میں اب کھڑا ہوں، پھیلائے ہاتھ خالی
غم تھے میرا اثاثہ، اور غم نہیں رہے ہیں
ہر احتیاط ضروری ہے زندگی کے لیے
سکوں اسی میں ہے در اصل آدمی کے لیے
غم و خوشی سے پرے ہو گی جب نظر تیری
کبھی نہ ترسے گا لمحاتِ زندگی کے لیے
یہ فیضِ علم و ہنر اور ضیائے شمس و قمر
طلب اگر ہو تو کافی ہے روشنی کے لیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سوال
خزاں گزیدہ ہوں صبر و قرار دے ربی
مِرے چمن کو متاعِ بہار دے ربی
زمیں کی کوکھ سلگتی ہے ایک مدت سے
کرم کی بارشیں اب تو اتار دے ربی
مِرے لہو میں اناؤں کی آگ روشن رکھ
میں زندہ ہوں یہ مجھے اعتبار دے ربی
سینے میں اس کے اک دل درد آشنا تو ہے
وہ فلسفی نہیں ہے مگر سوچتا تو ہے
تازہ ہوا سے کہہ دو چلی آئے بے خطر
در بند ہے ضرور دریچہ کھلا تو ہے
قسمت پہ ناز کیوں نہ کروں مدتوں کے بعد
تم سا رہِ حیات میں ساتھی ملا تو ہے
نہیں ہے گرچہ خزاں، پھول دستياب نہیں
لگا دو آگ، جہاں پھول🎕 دستياب نہیں
یہ دشتِ دل ہے یہاں صرف ریت اگتی ہے
وگرنہ آج کہاں پھول🎕 دستياب نہیں
میں سارے شہر کا چکر لگا کے آیا ہوں
کسی جگہ پہ یہاں پھول🎕 دستياب نہیں
پچھلے زخموں کا ازالہ نہ ہی وحشت کرے گا
تجھ سے واقف ہوں مِری جاں تو محبت کرے گا
میں چلا جاؤں گا دنیا سے سکندر کی طرح
اگلی صدیوں پہ مِرا نام حکومت کرے گا
دل تِری راہ اذیت سے پلٹنے کو ہے
کیا تو اب بھی نہ مِرا خواب حقیقت کرے گا
مارا اس شرط پہ اب مجھ کو دوبارہ جائے
نوکِ نیزہ سے مِرا سر نہ اتارا جائے
شام سے پہلے کسی ہجر میں مر جائے گا
سورج اک بار مِرے دل سے گزارا جائے
اس کی یہ ضد کہ مِرا قتل پس پردہ ہو
مِری خواہش مجھے بازار میں مارا جائے
یہ نہ سمجھو ضبطِ غم سے دم مِرا گھٹتا نہیں
گھر سے باہر کیسے نکلوں، کوئی دروازہ نہیں
تپ کے غم کی آگ میں جب تک کہ دل نکھرا نہیں
اس نے اپنے درد کے قابل مجھے سمجھا نہیں
شہرِِ دل میں آج کل ہے اس قدر گہرا سکوت
جیسے اس بستی میں کوئی آدمی رہتا نہیں
شکوہ کی بات ہے نہ شکایت کی بات ہے
آپس کی گفتگو ہے محبت کی بات ہے
ایثار چاہتی ہے محبت بہ نام ترک
اب امتحان ظرف ہے ہمت کی بات ہے
بتخانے میں بھی نور خدا دیکھتا ہوں میں
جی ہاں یہ میرے حسنِ عقیدت کی بات ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ایک احساس (مسجد نبوی کے زیر سایہ)
جو چاند کی طرح تھا رخ یار ہے کہاں
پھیلی تھی جس کی چاندنی، وہ پیار ہے کہاں
کر دے جو دور روح کا آزار ہے کہاں
وہ دوست اب کہاں، وہ غمخوار ہے کہاں
جلووں سے جس کے دل کو نئی زندگی ملی
اے دل! خبر تو دے مِرے دلدار ہے کہاں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سوا خدا کے یہاں کون سننے والا ہے
خموشیوں کی زباں کون سننے والا ہے
کسے سناتے ہو ان برف کے جزیروں میں
یہ آہِ سرد میاں! کون سننے والا ہے؟
خدا کو چھوڑ کے اس بے حسوں کی بستی میں
ہمارے غم کا بیاں کون سننے والا ہے؟
الفت کی اگر روداد سنو تو میرا فسانہ کافی ہے
ہاں ذکر جفائے دوست نہیں بیداد زمانہ کافی ہے
دنیا کو بھلا ہم کیا دیں گے خود دست نگر ہیں ہم ان کے
کچھ ان پہ تصدق کرنا ہو تو غم کا خزانہ کافی ہے
اس دور جنوں میں اپنا پتہ ہم اس کے سوا کیا سمجھائیں
اک نقش قدم سجدوں کے نشاں بس اتنا ٹھکانہ کافی ہے
صرف کافی نہیں فنا مجھ کو
عشق! کچھ اور بھی سکھا مجھ کو
یاں تو ہر شکل میری شکل پہ ہے
تُو کہیں اور بھیجتا مجھ کو
تیرا پرتو ہوں، تیرا عکس ہوں میں
مت کسی اور سے ملا مجھ کو
لائے گا رنگ جذبۂ ایثار دیکھنا
آنے دو وقت ہم کو سرِ دار دیکھنا
جاتی ہے جان جائے مگر یار دیکھنا
اٹھنے نہ پائے پردۂ اسرار دیکھنا
چہرے سے تم نقاب اٹھاتے تو ہو مگر
غش کھا نہ جائیں ظالبِ دیدار دیکھنا
میں افشا آج راز حُسنِ مہر و ماہ کرتا ہوں
دلِ عالم کو ذوقِ عشق سے آگاہ کرتا ہوں
بنے کیوں مانعِ قصدِ سفر دشواریِ منزل
تِرے نقشِ قدم کو میں چراغِ راہ کرتا ہوں
نہ آنکھوں میں رہے آنسو نہ لب پر ہی رہے نالے
محبت کی ستم انگیزیوں پر، واہ کرتا ہوں
دوست میرے ہی مجھے دشمنِ جاں لگتے ہیں
لفظ و لہجے بھی مجھے تیر و کماں لگتے ہیں
صرف تجھ تک نہیں موقوف تیرا حسن و جمال
کم تجھے دیکھنے والے بھی کہاں لگتے ہیں
جو ترے قول مری راحتِ جاں تھے پہلے
اب وہ سب قول مجھے آہ و فغاں لگتے ہیں
بس ایک قطرہ ہوں میں کوئی جھیل تھوڑی ہوں
نہیں ہوں سب کو مہیا، سبیل تھوڑی ہوں
مرے سہارے پہ وحشت کا بول بالا ہے
میں خاکِ عشق ہوں شاہی فصیل تھوڑی ہوں
میں کیسے پریوں کے اجسام پاک کر پاتا
میں اک فضول کنارہ ہوں جھیل تھوڑی ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
فرش مہکے ہے رہگزر مہکے
تیری آمد سے بحر و بر مہکے
آئی میلادِ مصطفیٰﷺ کی گھڑی
چھٹ گئیں ظلمتیں، سحر مہکے
تیرے صدقے ہے نعمتِ کونین
تیرے صدقے میں تاجور مہکے
راہ تکتے ہیں کس کی گھڑی در گھڑی
بیتی جاتی ہے جیسے صدی در صدی
درد ہے دل میں جو بہہ نہ جائے کہیں
ہم بہاتے نہیں اشک اپنے کبھی
روزگار اب نجومی تو اپنا بدل
کیا ستارے باتائیں گے قسمت مِری
جو مجھ میں شے ہے ابھی کے ابھی نکالتا ہوں
میں دل نچوڑ کے سب روشنی نکالتا ہوں
مِرے وجود سے تب لا وجود بولتا ہے
میں اپنے بھید سے جب شاعری نکالتا ہوں
میں موسموں کو سکھاتا ہوں ضبط کے معنی
پھر ایک پیڑ سے سب خامشی نکالتا ہوں
نہیں ہے مجھ کو تمنا فریب کھانے کی
اگر ہے چاہ تو بس تم کو بھول جانے کی
بدل کے چھوڑیں گے کہنہ روش زمانے کی
وفا جو ہم سے کبھی عمرِ بے وفا نے کی
ہزار بار جنہیں آزما کے دیکھا ہو
سعی فضول ہے پھر ان کو آزمانے کی
موسم گل میں بھی گل نذر خزاں ہیں سارے
مطمئن کوئی نہیں، محوِ فغاں ہیں سارے
ہوش مندی سے قدم آگے بڑھاؤ لوگو
اپنی جانب ہی کھنچے تیر و کماں ہیں سارے
چہچہانے کی صدا آئی تھی کل تک جن سے
جانے کیوں آج وہ خاموش مکاں ہیں سارے
سچ بات بتاتے تھے خریدار سے پہلے
ایمان کے تاجر نہ تھے بازار سے پہلے
وہ وقت بھی کیا وقت تھا جب لوگ گھروں میں
قرآن پڑھا کرتے تھے اخبار سے پہلے
اس دورِ ترقی کا نتیجہ ہے کہ اب لوگ
کپڑوں پہ نظر رکھتے ہیں کردار سے پہلے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خیالوں میں ہیں تاجدار مدینہ
دکھا دے خدا پھر دیار مدینہ
سماعت میں کلمے کی وہ چاشنی ہے
نگاہوں میں ہے مرغزارِ مدینہ
چہکتے ہیں مے کس، کھنکتے ہیں پیالے
جوانی پہ ہے آبشارِ مدینہ
اہل دنیا کی طرح سوچا نہ کر
چاہتوں کو اس طرح رسوا نہ کر
کون دکھ میں ساتھ دیتا ہے بھلا؟
درد و غم کا برملا چرچا نہ کر
چاند راتوں کی خبر دیتا ہے یہ
ڈوبتے سورج سے گھبرایا نہ کر
لٹ جائے چمن گل کا تبسم نہیں بکتا
سو دام ہوں بلبل کا ترنم نہیں بکتا
بک جاتا ہے زردار کی الفت کا تیقن
نادار کی چاہت کا توہم نہیں بکتا
بڑھتی ہے بڑھے گرمئ بازار ہوس کی
لب بکتے ہیں اے دوست تبسم نہیں بکتا
کتاب شوق میں ان بند باب آنکھوں کو
نہ سہل جان مِری جان خواب آنکھوں کو
میں اب بھی پڑھتا ہوں تزئین شعر و فن کے لیے
تمام رات تِری خوش نصاب آنکھوں کو
قلم امانت حق تھا سو لکھ دیا میں نے
شگفتہ لمس لبوں کو شراب آنکھوں کو
عشق میں اشک جو بہاتے ہو
آگ پانی کو تم ملاتے ہو
سارے پکوان پھر لگیں پھیکے
ہونٹ جب ہونٹ سے لگاتے ہو
ایک کانٹے سے پھول نے بولا
شکریہ تم مجھے بچاتے ہو
آنکھوں کا شور خُون کی گنگا اُتر گیا
اس غم نے کاٹ کھایا کہ دل بے ہُنر گیا
گل مہر پہ خزاں نے لگائی ہے غم کی مہر
تیتر کھنڈر پہ شاخ کی سِسکاری بھر گیا
چھاؤں میں چاند کے تھا مِرے ساتھ ایک نُور
سُورج گِرا جو سر پہ ستارا مُکر گیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مدح خواں کیوں نہ ہوں صبح و شام آپ کا
یا نبیﷺ میں ہوں ادنیٰ غلام آپ کا
جن و انساں، ملائک، خلاق سبھی
کرتے ہیں یا نبیﷺ احترام آپ کا
آپ کی ذات رحمت ہے سب کے لیے
دونوں عالم پہ ہے لطف عام آپ کا
کوئی منتر تو بتا، ایسا فسوں ہو جائے
میرے قدموں میں وہ محبوب نگوں ہو جائے
ایک ہی پھونک سے ہو جائے وہ دیوانہ مِرا
اک مِرے قُرب کا غافل کو جنوں ہو جائے
اس کو بھی میری طرح چین نہ آئے پل بھر
ایسا تڑپے کہ مِرے دل کو سکوں ہو جائے
فصل گل بھی آئی ہے اور پون بھی سنکی ہے
پھر بھی ان فضاؤں میں کیفیت جلن کی ہے
کیا پتہ کہ یہ کس کے پیار کا جنازہ ہے؟
لوگ یوں تو کہتے ہیں؛ پالکی دُلہن کی ہے
اف یہ کیسا صحرا ہے، ہائے کس کی تُربت ہے
آپ یہ کلی تنہا جانے کس چمن کی ہے
آتا اگر بغل میں بوتل دبائے واعظ
مستی میں چوم لیتے ہم بڑھ کے پائے واعظ
بندے ہیں سب اسی کی امیدوار رحمت
رندوں کا بھی وہی ہے جو ہے خدائے واعظ
آیا ہے پی کے شاید لکنت زبان میں ہے
چلنے میں بھی نہیں ہیں قابو میں پائے واعظ
خود جن کی نظر ہے رسن و دار کے آگے
وہ سر نہ جھکیں گے کبھی تلوار کے آگے
مل جائے مِری عمر انہیں قافلے والو
جانا ہے جنہیں منزلِ دشوار کے آگے
ایک اور بھی دیوارِ تمدن ہے شکستہ
تہذیب کی گرتی ہوئی دیوار کے آگے
یہ بازارِ محبت ہے یہاں نفرت نہیں ملتی
جہاں خورشید ہوتا ہے وہاں ظلمت نہیں ملتی
ہجوم مردماں میں اجنبی بھی ہیں شناسا بھی
کوئی بستی کہ جس سے دل کو ہو رغبت نہیں ملتی
دلِ پُر درد بھی اک خاص عطا ہوتی ہے مالک کی
کہ اس دنیا میں ہر سینے کو یہ دولت نہیں ملتی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
چمن میں آگ لگے آشیاں رہے نہ رہے
تِری بہار رہے گی ، خزاں رہے نہ رہے
حضورﷺ! آپ کا دستِ کرم دراز رہے
کہ سر پہ سایۂ ہفت آسماں رہے نہ رہے
سہارہ آپ کی رحمت کا ہے بہت ہم کو
بروزِ حشر کوئی مہرباں رہے نہ رہے
کہوں کس طرح کیا غضب بولتے ہیں
برستے ہیں شعلے وہ جب بولتے ہیں
اگر وقت آیا تو سب چپ رہیں گے
ابھی لاکھ بڑھ چڑھ کے سب بولتے ہیں
وہی ان سے ہم بول اٹھیں تو کیا ہو
کہ جو ہم سے وہ روز و شب بولتے ہیں
وصل کی شب گزر نہ جائے کہیں
تیرا بیمار مر نہ جائے کہیں
یاد میں ان کی میرے اشکوں کا
آج پیمانہ بھر نہ جائے کہیں
شبِ فرقت ہے اور تنہائی
دل کی دھڑکن ٹھہر نہ جائے کہیں
تِری خدمات میں بیٹھے ہوئے ہیں
کہ سب اوقات میں بیٹھے ہوئے ہیں
چھپانا چاہتے ہیں اپنے آنسو
سو ہم برسات میں بیٹھے ہوئے ہیں
بہت دشوار ہے گھر سے نکلنا
عدو سب گھات میں بیٹھے ہوئے ہیں
ہے حرم کس کا کس کے بت خانے
اس کو سمجھے ہیں کچھ تو دیوانے
زندگی کا مزا وہ کیا جانے
غم دئیے ہوں نہ جس کو دنیا نے
چشم مخمور ہیں وہ پیمانے
جن پہ قرباں ہزار مےخانے
ماں اور کووڈ 19
سردیوں کی راتوں میں
ایک دن کے بچے کو
اپنے گرم ہاتھوں میں
گرم کر کے رکھتی ہے
ایک دن کے بچے کو
کچھ پتا نہیں ہوتا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
فطرت نے کِیا آپ کو ممتاز خدیجہؑ
ایّامِ جفا جُو میں وفا ساز خدیجہؑ
سادات میں جس نور کی تقسیم ہوئی ہے
اس نورِ ابد تاب کا آغاز خدیجہؑ
وہ آپ ہیں جن کےلیے ہر ایک سے پہلے
ہوتا ہے سخی صحن کا در باز خدیجہؑ
نظر سے سب کی پنہاں ہے جو اندازِ نظر اپنا
کہیں مٹی میں مل جائے نہ سب کسبِ ہنر اپنا
محیطِ سوزِ عالم ہے اگر سوزِ ہنر اپنا
بقدرِ وسعتِ دل چاہیے دردِ جگر اپنا
غزل گوئی کی تہمت کیوں مِرے ذوقِ جنوں پر ہی
نہیں منت کشِ رسمِ ہنر، ذوقِ ہنر اپنا
عبارت جو اداسی نے لکھی ہے
بدن اس کا غزل سا ریشمی ہے
کسی کی پاس آتی آہٹوں سے
اداسی اور گہری ہو چلی ہے
اچھل پڑتی ہیں لہریں چاند تک جب
سمندر کی اداسی ٹوٹتی ہے
اپنے حقوق پر ہی نہیں ہے جو اختیار
ایسے نظامِ عدل پہ لعنت ہو بے شمار
اپنے پڑوس دیکھ، کسی کو نہ دیکھ یار
قابض نہیں ہوتے ہیں وہاں لوگ تین چار
آواز بھی اٹھاؤں تو کس کو سنے حضور
ہے چور بھی یہاں پہ ہمارا ہی چوکیدار
ماں باپ ہیں، اِک پیڑ ہے، قرآن رکھا ہے
گھر میں جو ضروری ہے وہ سامان رکھا ہے
لگتا ہی نہیں دل کو سخن اور کسی کا
بس میر تقی میر کا دیوان رکھا ہے
پھر کون بلاتا ہے مجھے پیار کی جانب
یہ کس نے مِرے کمرے میں گُلدان رکھا ہے
حالات کے خداؤ! وہ ملعون ہم ہی ہیں
حمدون ہم کو کہتے ہیں حمدون ہم ہی ہیں
گھبرا کے تشنگی سے جو اپنے کو پی گیا
خود گیر و خود شکار وہ مجنون ہم ہی ہیں
جس سے ملی ہے بانجھ دماغوں کو زندگی
اے ناقدِ حیات! وہ مضمون ہم ہی ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جس میں اک عالم ہوا غرقاب ہے
نعتﷺ کا کتنا کشادہ باب ہے
دیکھ کر نقشِ کفِ پائے نبیﷺ
محوِ حیرت آج بھی مہتاب ہے
دیکھے ان کو آنکھ جھپکائے بغیر
کون ہے کس میں بھلا یہ تاب ہے
دکھ میں مژدہ بہار کا آیا
یاد جب نقشہ یار کا آیا
بھول کر یاد کر لیا دل نے
پھر نہ پل بھر قرار کا آیا
جب نہ پیغام یار کا آیا
رونا تب بار بار کا آیا
خوشبو کا جسم، یاد کا پیکر نہیں ملا
دل جس سے ہو شگفتہ وہ منظر نہیں ملا
آخر بجھاتا کیسے وہ اپنی لہو کی پیاس
تلوار مل گئی تو کوئی سر نہیں ملا
ناگاہ دوستوں کی طرف اٹھ گئی نگاہ
جب دشمنوں کے ہاتھ میں خنجر نہیں ملا
اسی سے عشق کا اظہار کر کے آیا ہوں
جو بے خبر تھا خبردار کر کے آیا ہوں
بڑی عجیب سی حالت ہوئی اس دل کی
صنم کا جب سے میں دیدار کر کے آیا ہوں
بڑے غرور سے کہتا ہے ایک بوڑھا باپ
میں اپنی نسل کو خود دار کر کے آیا ہوں
منزل کے نام
کیسے کھینچوں تِری تصویر تو گُم ہے اب تک
تجھ کو اے جان جہاں میں نے تو دیکھا بھی نہیں
جب کبھی ابرِ شبِ مہ میں اُڑا جاتا ہے
آبشاروں سے صدا آتی ہے چھن چھن کے کہیں
یا کبھی شام کی تاریکی میں تنہائی میں
جب کبھی جلوہ جھلکتا ہے تِری یادوں کا
علامہ اقبال
سینہ تھا تِرا بام مشرق و مغرب کا خزینہ
دل تھا تِرا اسرار و معارف کا دفینہ
ہر شعر تِِرا بام ترقی کا ہے زینہ
مانند مہِ نو تھا فلک سیر سفینہ
اس ساز کے پردے میں تھی عرفان کی آواز
کیا عرش سے ٹکرائی ہے انسان کی آواز
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
فلک سے چاند ستارے سلام کہتے ہیں
حضورﷺ امتی سارے سلام کہتے ہیں
بساط کیا ہے ہماری جب آپ کو سرکارؐ
قرآن کے پارے سلام کہتے ہیں
سلام کے لیے شاخیں جھکی ہوئی ہیں حضورؐ
جو ان پہ پھول ہیں سارے سلام کہتے ہیں
ہر اک قدم پہ عشق میں رسوائیاں ملیں
برگشتہ مجھ ہی سے مِری پرچھائیاں ملیں
پھرتی رہی سکون کی خاطر میں در بدر
جس سمت بھی گئی، مجھے تنہائیاں ملیں
دل میں تو ہم نے جھانک کے دیکھا نہیں کبھی
آنکھوں میں اُس کی جھیل سی گہرائیاں ملیں
بے وفا ہے وہ کبھی پیار نہیں کر سکتا
ہاں مگر پیار سے انکار نہیں کر سکتا
اپنی ہمت کو جو پتوار نہیں کر سکتا
وہ سمندر کو کبھی پار نہیں کر سکتا
جو کسی اور کے جلووں کا تمنائی ہو
وہ کبھی بھی ترا دیدار نہیں کر سکتا
نہیں نہیں ہے مجھے اعتبار شیشے پر
پڑا ہی رہنے دو گرد و غُبار شیشے پر
تُو جا رہا ہے تو یہ آئینہ بھی لیتا جا
نظر پڑے گی مِری بار بار شیشے پر
ہُوا ہے چُور تو بکھری پڑی ہے خاکِ بدن
رکھا تھا کس نے یہ اپنا مزار شیشے پر
پھول کو رنگ ستارے کو ضیا سجتی ہے
میرے دشمن تجھے نفرت کی قبا سجتی ہے
درد تھم جاتا ہے کچھ دیر کو تسکیں پا کر
آنچ دیتے ہوئے زخموں پہ انا سجتی ہے
شاخ کیسی بھی ہو پھولوں سے حسیں لگتی ہے
روپ کیسا بھی ہو ہونٹوں پہ دعا سجتی ہے
کیا غم ہے اگر بے سر و سامان بہت ہیں
اس شہر میں کردار کے دھنوان بہت ہیں
چاہو تو تغافل کے نئے تیر چلاؤ
ٹوٹے ہوئے دل میں ابھی ارمان بہت ہیں
دزدیدہ نگاہی یہ حیا بار تبسم
اس بزم میں لٹ جانے کے امکان بہت ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تُو احد ہے تُو صمد ہے تُو ہی بے مثال بھی ہے
تُو حفیظِ اہلِ حق ہے،۔ شہِ ذوالجلال بھی ہے
جو ہے دن نکلنا ڈھلنا مِری یہ سمجھ میں آیا
کہ عروج ہے کسی کو اسے پھر زوال بھی ہے
تُو جو چاہے پتھروں کو زر و سیم میں بدل دے
ہے یقین مجھ کو آقا تِرا کمال بھی ہے
اشک آنکھوں میں آ کر سجانے لگی
تیرے غم کی ادا دل لُبھانے لگی
ہم تھے مدہوش ہم کو خبر تھی کہاں
زندگی کب غزل گُنگنانے لگی
ہم نے سوچا تھا یکسر بھُلا دیں تمہیں
دل جو تڑپا تو پھر یاد آنے لگی
چہرے پہ کوئی رنگ ٹھہرنے نہیں دیتا
غم مجھ کو کسی طور سنورنے نہیں دیتا
ہر لحظہ تِری یاد کا بِپھرا ہوا طوفاں
دریائے محبت کو اُترنے نہیں دیتا
اے شہرِ سلاسل! تِرا انصاف کا وعدہ
پژمُردہ اُمیدوں کو بھی مرنے نہیں دیتا
یوں چلی ہے ہوا وطن میں اداس
سانس چلتے ہیں اب بدن میں اداس
ننگے پاؤں رواں دواں ہے جنوں
آزمائش کی اس اگن میں اداس
سازشی موسموں کی جیت ہوئی
غنچہ و گل ہوئے چمن میں اداس
لگا سنگین سا الزام کوئی
ملے ہر شخص کو پیغام کوئی
تجھے معلوم ہو پھر دکھ ہمارا
تِرے آنگن میں اترے شام کوئی
دو عالم بے خودی میں رقص میں ہوں
ہمارے ہاتھ میں ہو جام کوئی
پلکوں پہ سج رہے ہیں جو موتی نہ رولیے
جوہر ہیں غم کے غم کے ترازو میں تولیے
شامِ غمِ فراق کے پہلو میں بیٹھ کر
آئی کسی کی یاد تو چپکے سے رو لیے
موندی گئیں جو آنکھیں تو آئے وہ دیکھنے
آ کر بھی کہہ نہ پائے کہ آنکھیں تو کھولیے
کتنے بوسیدہ ہیں حالات مسلمانوں کے
دل دکھاتے ہیں یہاں فیصلے ایوانوں کے
اوڑھنا، اور بچھونا ہوا دولت ان کا
باعثِ شرم یہاں کام ہیں سلطانوں کے
یہ بھی محبوب کی یادوں میں مگن ہوں شاید
شیخ جی! آپ کیوں دشمن ہوئے دیوانوں کے