Saturday, 24 May 2014

جو وہ تو نہ رہا تو وہ بات گئی جو وہ بات گئی تو مزا نہ رہا

جو وہ تُو نہ رہا تو وہ بات گئی، جو وہ بات گئی تو مزا نہ رہا
وہ اُمنگ کہاں‌، وہ ترنگ کہاں، وہ مزاج وفا و جفا نہ رہا
شب و روز کہیں‌ بھی الگ نہ ہوا، شب و روز کہاں‌ وہ ملا نہ رہا
رگِ جاں‌ سے ہماری قریب رہا، رگِ جاں سے ہماری جدا نہ رہا
کسی شکل میں‌ بھی، کسی رنگ میں‌ بھی، کسی رُوپ میں ‌بھی کسی ڈھنگ میں ‌بھی
وہ ہماری نظر سے چھپا تو مگر وہ ہماری نظر سے چھپا نہ رہا
تھی خزاں‌ کے لباس میں‌ کس کی نظر کہ جھلستی گئی ہے تمام شجر
کسی شاخ‌ پہ تازہ کلی نہ رہی، کوئی پتہ چمن میں ‌ہرا نہ رہا
تیرے ظلم و ستم ہوئے مجھ پہ جو کم تو یہ حال میرا ہے قدم بہ قدم
وہ تڑپ نہ رہی، وہ جلن نہ رہی، غم و درد میں‌ اب وہ مزا نہ رہا
بہے اشک وفور ملال سے جب، کھلے راز تمام، ہوا یہ غضب
کوئی بات کسی سے چھپی نہ رہی، کوئی حال کسی سے چھپا نہ رہا
دم دِید ہزار حواس گئے، رہے دُور ہی دُور کہ پاس رہے
ہمیں ‌دیکھنا تھا انہیں‌ دیکھ لیا، کوئی بیچ میں‌ پردہ رہا نہ رہا
مرے دم سے تھے نقش و نگارِ جنوں‌، مرے بعد کہاں وہ بہارِ جنوں
کسی خار کی نوک پہ کیا یہ ہو تری، کوئی دشت میں ‌آبلہ پا نہ رہا
مرے پاس جو آ بھی گیا ہے کبھی، تو یہ ڈھنگ رہے تو یہ شکل رہی
وہ ذرا نہ کُھلا، وہ ذرا نہ کِھلا، وہ ذرا نہ تھما، وہ ذرا نہ رہا
کیے تیری نگاہ نے جس پہ کرم، رہا دونوں ‌جہان میں ‌اس کا بھرم
جسے تیرے غضب نے تباہ کیا، کہیں ‌اس کا بھرم بخدا نہ رہا
جو نصیرؔ ہم ان کے قریب ہوئے، تو حیات کے رنگ عجیب ہوئے
غمِ ‌ہجر میں ‌اور ہی کچھ تھی خلش، وہ خلش نہ رہی وہ مزا نہ رہا

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment