Wednesday 14 May 2014

ہائے وہ وقت جدائی کے ہمارے آنسو

ہائے وہ وقت جدائی کےہمارے آنسو
گِر کے دامن پہ بنے تھے جو سِتارے آنسو
لَعل و گُوہر کے خزانے ہیں یہ سارے آنسو
کوئی آنکھوں سے چُرا لے نہ تمہارے آنسو
اُن کی آنکھوں میں جو آئیں تو ستارے آنسو
میری آنکھوں میں اگر ہوں تو بِچارے آنسو
دامن صبر بھی ہاتھوں سے مِرے چھوٹ گیا
اب تو آ پہنچے ہیں پلکوں کے کِنارے آنسو
آپ لِلہ مِری فکر نہ کیجئے ہرگز
آ گئے ہیں یوں ہی بس شوق کے مارے آنسو
دو گھڑی درد نے آنکھوں میں بھی رہنے نہ دیا
ہم تو سمجھے تھے بنیں گے یہ سہارے آنسو
تُو تو کہتا تھا نہ روئیں گے کبھی تیرے لئے
آج کیوں آ گئے پلکوں کے کنارے آنسو
آج تک ہم کو قَلق ہے اسی رُسوائی کا
بہہ گئے تھے جو بچھڑنے پہ ہمارے آنسو
میرے ٹھہرے ہوئے اَشکوں کی حقیقت سمجھو
کر رہے ہیں کسی طُوفاں کے اِشارے آنسو
آج اَشکوں پہ مِرے تم کو ہنسی آتی ہے
تم تو کہتے تھے کبھی ان کو سِتارے آنسو
اس قدر غم بھی نہ دے کُچھ نہ رہے پاس مِرے
ایسا لگتا ہے کہ بہہ جائیں گے سارے آنسو
دل کے جلنے کا اگر اب بھی یہ انداز رہا
پھر تو بن جائیں گے ایک دن یہ شرارے آنسو
تم کو رِم جھِم کا نظارہ جو لگا ہے اب تک
ہم نے جلتے ہوئے آنکھوں سے گزارے آنسو
میرے ہونٹوں کو تو جُنبش بھی نہ ہو گی لیکن
شِدّتِ غم سے جو گھبرا کے پُکارے آنسو
میری فریاد سنی ہے نہ وہ دل موم ہوا
یوں ہی بہہ بہہ کے مرے آج یہ ہارے آنسو
ان کو ناصرؔ کبھی آنکھوں سے نہ گرنے دینا
میری آنکھوں میں انہیں لگتے ہیں پیارے آنسو

حکیم ناصر

No comments:

Post a Comment