کل اپنے شہر کی بس میں سوار ہوتے ہوئے
وہ دیکھتا تھا مجھے اشکبار ہوتے ہوئے
پرندے آئے تو گنبد پہ بیٹھ جائیں گے
نہیں شجر کی ضرورت مزار ہوتے ہوئے
ہے ایک اور بھی صورت رضا و کفر کے بیچ
کہ شک بھی دل میں رہے اعتبار ہوتے ہوئے
مِرے وجود سے دھاگہ نکل گیا ہے دوست
میں بے شمار ہوا ہوں شمار ہوتے ہوئے
ڈبو رہا ہے مجھے ڈوبنے کا خوف اب تک
بھنور کے بیچ ہوں دریا کے پار ہوتے ہوئے
وہ قید خانہ غنیمت تھا مجھ سے بے گھر کو
یہ ذہن ہی میں نہ آیا فرار ہوئے ہوئے
افضل خان
وہ دیکھتا تھا مجھے اشکبار ہوتے ہوئے
پرندے آئے تو گنبد پہ بیٹھ جائیں گے
نہیں شجر کی ضرورت مزار ہوتے ہوئے
ہے ایک اور بھی صورت رضا و کفر کے بیچ
کہ شک بھی دل میں رہے اعتبار ہوتے ہوئے
مِرے وجود سے دھاگہ نکل گیا ہے دوست
میں بے شمار ہوا ہوں شمار ہوتے ہوئے
ڈبو رہا ہے مجھے ڈوبنے کا خوف اب تک
بھنور کے بیچ ہوں دریا کے پار ہوتے ہوئے
وہ قید خانہ غنیمت تھا مجھ سے بے گھر کو
یہ ذہن ہی میں نہ آیا فرار ہوئے ہوئے
افضل خان
No comments:
Post a Comment