Saturday, 10 May 2014

وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلا

 وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلا 

ہم قفس راز اسیری کیا کہیں کیونکر کھلا

فرصت رنج اسیری دی نہ ان دھڑکوں نے ہائے 

اب چھری صیاد نے لی اب قفس کا در کھلا

اللہ اللہ اک دعائے مرگ کے دو دو اثر 

واں کھلا باب اجابت یاں قفس کا در کھلا

اف اس آزادئ بے ہنگام کی مجبوریاں 

میں قفس کے پاس یوں بیٹھا ہی رہتا پر کھلا

عجلت پرواز جب ملنے بھی دے راہ گریز 

یوں تو کھلنے کو قفس کا در کھلا اکثر کھلا

بند ہے باب قفس ہو سر تو پٹکے جائیے 

ہم نے دیکھا ہے قفس کی تیلیوں میں در کھلا

کم تو کیا صیاد بے تابی سوا ہو جائے گی 

تو نے ناحق تیلیوں میں رکھ دیا خنجر کھلا

آسماں گرم تلافی چاہیے کیسا قفس 

بجلیوں کے اک اشارے میں قفس کا در کھلا

لکھ چکے ہم جا چکا خط گر یہی حالت رہی 

ہاتھ میں آیا قلم اور شوق کا دفتر کھلا

دل میں زخم اشکوں میں خوں صورت ببیں عالم مپرس 

وہ نگہ اف وہ مژہ ناوک چھپا نشتر کھلا

دم بخود سکتے کا عالم مُردنی چھائی ہوئی 

رنگ میری زندگی کا میری میت پر کھلا

دل میں تیرا دھیان اک مدت رہا بیگانہ وار 

کھلتے ہی کھلتے کھلا اور کیا ہی شرما کر کھلا

دیکھیے کیا گل کھلاتی ہے بہار اب کے برس 

خواب میں فانی نے دیکھا ہے قفس کا در کھلا


فانی بدایونی

No comments:

Post a Comment