Saturday 17 May 2014

حوصلے دیدۂ بیدار کے سو جاتے ہیں

حوصلے دیدۂ بیدار کے سو جاتے ہیں
نیند کب آتی ہے تھک ہار کے سو جاتے ہیں
روز کا قصہ ہے یہ معرکۂ یاس و امید
جیت کر ہارتے ہیں، ہار کے سو جاتے ہیں
سونے دیتے ہیں کہاں شہر کے حالات، مگر
ہم بھی سفاک ہیں جی مار کے سو جاتے ہیں
چاہتے ہیں رہیں بیدار غمِ یار کے ساتھ
اور پہلو میں غمِ یار کے سو جاتے ہیں
ڈھیر ہو جاتی ہے وحشت کسی آغوش کے پاس
سلسلے سب رم و رفتار کے سو جاتے ہیں
جاگتے تھے تری تصویر کے امکاں جن میں
اب تو وہ رنگ بھی دیوار کے سو جاتے ہیں

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment