Saturday 17 May 2014

ڈر کے کسی سے چھپ جاتا ہے جیسے سانپ خزانے میں

ڈر کے کسی سے چھپ جاتا ہے جیسے سانپ خزانے میں
زر کے زور سے زندہ ہیں سب خاک کے اس ویرانے میں
جیسے رسم ادا کرتا ہوں شہروں کی آبادی میں
صبح کو گھر سے دور نکل کر شام کو واپس آنے میں
نیلے رنگ میں ڈوبی آنکھیں کھلی پڑی تھیں سبزے پر
عکس پڑا تھا آسمان کا شاید اس پیمانے میں
دبی ہوئی ہے زیر زمیں اک دہشت گنگ صداؤں کی
بجلی سی کہیں لرز رہی ہے کسی چھپے تہ خانے کی
دل کچھ اور بھی سرد ہوا ہے شام شہر کی رونق سے
کتنی ضیا بے سود گئی شیشے کے لفظ جلانے میں
میں تو منیرؔ آئینے میں خود تک کر حیران ہوا
یہ چہرہ کچھ اور طرح تھا پہلے کسی زمانے میں

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment