Wednesday 7 May 2014

طویل بھی ہے فقط صبر آزما ہی نہیں

طویل بھی ہے فقط صبر آزما ہی نہیں
یہ رات جس میں ستاروں کا کچھ پتا ہی نہیں
نگاہِ دل کو جو رنگِ ثبات سے بھر دے
ابھی وہ پھول کسی شاخ پر کھلا ہی نہیں
جو دیکھتا ہے، کسی کو نظر نہیں آتا
جو جانتا ہے، اُسے کوئی جانتا ہی نہیں
نظر جہان پہ ٹھہرے تو کس طرح ٹھہرے
اس آئینے میں کوئی عکسِ دلربا ہی نہیں
لئے پھرا ہوں نہ جانے کہاں کہاں اِس کو
مگر یہ دل ہے کہ وہ راہ بھولتا ہی نہیں
وہ خواب ہوں جو کسی کو نظر نہیں آتا
وہ آئینہ ہوں جسے کوئی دیکھتا ہی نہیں
سُنا ہے ہجر بہت بے قرار کرتا ہے
ہمارے ساتھ تو ایسا کبھی ہوا ہی نہیں

اجمل سراج

No comments:

Post a Comment