Tuesday 6 May 2014

ہم کو معلوم ہے اس بات پہ سر لگتا ہے

ہم کو معلوم ہے اس بات پہ سر لگتا ہے
کوئی زنجیر ہلاتا ہے تو ڈر لگتا ہے
کوئی خاموشی سے لپٹی ہوئی ویرانی میں
دل پہ بچھڑی ہوئی شاموں کا اثر لگتا ہے
میری آوارہ مزاجی کو بہت سہل نہ جان
ایک ہی راہ پہ عمروں کا سفر لگتا ہے
کیا کہوں خوئے جنوں پہلے قدم پر تیرے
جان لگتی ہے، ہنر لگتا ہے، گھر لگتا ہے
یوں اجازت کو بھی حد چاہیے صحنِ دل میں
پہلے دیوار بناتے ہیں تو در لگتا ہے
کتنا چپ چاپ ہے اجڑے ہوئے شہروں کی طرح
کوئی تنہائی کے موسم کا شجر لگتا ہے

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment