Saturday, 10 May 2014

کرب کا لشکر تھا مقابل اور تنہا ایک میں

کرب کا لشکر تھا مقابل اور تنہا ایک میں
سینکڑوں لاکھوں مسائل اور تنہا ایک میں
آندھیوں گرداب موجوں اور طوفانوں کے ساتھ
درپئے آزار ساحل اور تنہا ایک میں
میں جنہیں اپنا سمجھتا تھا انہیں ہمراہ لیے
آ رہا تھا میرا قاتل اور تنہا ایک میں
ایسے عالم میں کہاں جاؤں کسے آواز دوں
آگ صحرا، دور منزل اور تنہا ایک میں
درد، آنسو، بے قراری، یاس اور دیوانگی
کاوشِ پیہم کا حاصل اور تنہا ایک میں
ایک تُو کہ زندگی دراصل تجھ پر ختم ہے
آبلہ پا، رُوح گھائل اور تنہا ایک میں

فرحت شہزاد

No comments:

Post a Comment