Thursday 8 May 2014

ایک بس تو ہی نہیں مجھ سے خفا ہو بیٹھا

ایک بس تُو ہی نہیں مجھ سے خفا ہو بیٹھا
میں نے جو سنگ تراشا وہ خدا ہو بیٹھا ​
اٹھ کے منزل ہی اگر آئے تو شاید کچھ ہو
شوقِ منزل تو میرا آبلہ پا ہو بیٹھا ​
مصلحت چھین گئی قوتِ گفتار مگر
کچھ نہ کہنا ہی مرا میری صدا ہو بیٹھا ​
شکریہ اے میرے قاتل اے مسیحا میرے
زہر جو تُو نے دیا تھا وہ دوا ہو بیٹھا​
جانِ شہزادؔ کو من جملۂ ادا پا کر
ہُوک وہ اُٹھی کے جی تن سے جدا ہو بیٹھا
 ​
  فرحت شہزاد

No comments:

Post a Comment