Wednesday 28 May 2014

تنکا تنکا کانٹے توڑے ساری رات کٹائی کی

تنکا تنکا کانٹے توڑے، ساری رات کٹائی کی
کیوں اتنی لمبی ہوتی ہے، چاندنی رات جُدائی کی
نیند میں کوئی اپنے آپ سے باتیں کرتا رہتا ہے
کال کنویں میں گونجتی ہے، آواز کسی سودائی کی
سینے میں دِل کی آہٹ، جیسے کوئی جاسوس چلے
ہر سائے کا پیچھا کرنا، عادت ہے ہرجائی کی
آنکھوں اور کانوں میں سناٹے سے بھر جاتے ہیں
کیا تم نے اُڑتی دیکھی ہے، ریت کبھی تنہائی کی
تاروں کی روشن فصلیں اور چاند کی ایک درانتی تھی
ساہو نے گروی رکھ لی تھی میری رات کٹائی کی

گلزار

No comments:

Post a Comment