تھک گیا ہے دلِ وحشی مِرا فریاد سے بھی
جی بہلتا نہیں اے دوست تری یاد سے بھی
اے ہوا! کیا ہے جو اب نظمِ چمن اور ہوا
صید سے بھی ہیں مراسم ترے، صیاد سے بھی
کیوں سِرکتی ہوئی لگتی ہے زمیں یاں ہر دَم
کبھی پوچھیں تو سبب شہر کی بنیاد سے بھی
برق تھی یا کہ شرارِ دلِ آشفتہ تھا
کوئی پوچھے تو مرے آشیاں برباد سے بھی
بڑھتی جاتی ہے کشش وعدہ گہِ ہستی کی
اور کوئی کھینچ رہا ہے عدم آباد سے بھی
پروین شاکر
جی بہلتا نہیں اے دوست تری یاد سے بھی
اے ہوا! کیا ہے جو اب نظمِ چمن اور ہوا
صید سے بھی ہیں مراسم ترے، صیاد سے بھی
کیوں سِرکتی ہوئی لگتی ہے زمیں یاں ہر دَم
کبھی پوچھیں تو سبب شہر کی بنیاد سے بھی
برق تھی یا کہ شرارِ دلِ آشفتہ تھا
کوئی پوچھے تو مرے آشیاں برباد سے بھی
بڑھتی جاتی ہے کشش وعدہ گہِ ہستی کی
اور کوئی کھینچ رہا ہے عدم آباد سے بھی
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment