Monday, 5 May 2014

نظر بھی آیا اسے اپنے پاس بھی دیکھا

نظر بھی آیا اسے اپنے پاس بھی دیکھا
میری نگاہ نے یہ التباس بھی دیکھا
بہت دنوں پہ چلے اور گھر سے چلتے وقت
کسی کی آنکھ سے اپنا لباس بھی دیکھا
یہی کہا کہ نہیں اس کا راستہ تھا الگ
پھر اس کے بعد ہی خود کو اداس بھی دیکھا
مقابلے پہ زمانے کے آ گئے، اور پھر
بہ پیشِ آئینہ، دل کا ہراس بھی دیکھا
وہ مجھ میں سوچ کے کس زاویے سے روشن ہو
یقیں بھی دیکھ لیا ہے، قیاس بھی دیکھا

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment