Saturday 17 May 2014

سستانے کو بیٹھا ہوں ستانے نہیں آیا

سستانے کو بیٹھا ہوں ستانے نہیں آیا
اے پنچھیو! میں تم کو اُڑانے نہیں آیا
ہاتھوں میں دعائیں ہیں کلہاڑی نہیں دیکھو
بیٹھے رہو، میں پیڑ گرانے نہیں آیا
آفات کے بارے میں نہ یوں شور مچاؤ
میں پوچھنے آیا ہوں، بتانے نہیں آیا
ہتھیار نظر آنے لگی تھی یہ درانتی
مٹی میں کوئی راز چھپانے نہیں آیا
کچھ دیر کو بس کھیلنے آیا ہوں اکیلے
میں کھیت کو میدان بنانے نہیں آیا
وہ کون مسافر ہے جو دعویٰ کرے عاصمؔ
آیا ہوں مگر لوٹ کے جانے نہیں آیا

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment