Saturday 17 May 2014

قرار ہجر میں اس کے شراب میں نہ ملا

قرار ہجر میں اس کے شراب میں نہ ملا
وہ رنگ اس گلِ رعنا کا خواب میں نہ ملا
عجب کشش تھی نظر پر سرابِ صحرا سے
گہر مگر وہ نظر کا اس آب میں نہ ملا
بس ایک ہجرتِ دائم گھروں زمینوں سے
نشان مرکز دلِ اضطراب میں نہ ملا
سفر میں دھوپ کا منظر تھا اور سائے کا اور
ملا جو مہر میں مجھ کو سحاب میں نہ ملا
ہوا نہ پیدا وہ شعلہ جو علم سے اٹھتا
یہ شہر مردہ صحیفوں کے باب میں نہ ملا
مکاں بنا نہ یہاں اس دیار شر میں منیرؔ
یہ قصر شوق نگر کے عذاب میں نہ ملا​

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment