یہ غنیمت ہے کہ ان آنکھوں نے پہچانا ہمیں
کوئی تو سمجھا دیارِ غیر میں اپنا ہمیں
وہ کہ جن کے ہاتھ میں تقدیرِ فصلِ گُل رہی
دے گئے سوکھے ہوئے پتوں کا نذرانہ ہمیں
وصل میں تیرے خرابے بھی لگیں گھر کی طرح
اور تیرے ہجر میں بستی بھی ویرانہ ہمیں
سچ تمہارے سارے کڑوے تھے، مگر اچھے لگے
پھانس بن کر رہ گیا بس ایک افسانہ ہمیں
اجنبی لوگوں میں ہو تم، اور اتنی دور ہو
ایک الجھن سی رہا کرتی ہے روزانہ ہمیں
پروین شاکر
کوئی تو سمجھا دیارِ غیر میں اپنا ہمیں
وہ کہ جن کے ہاتھ میں تقدیرِ فصلِ گُل رہی
دے گئے سوکھے ہوئے پتوں کا نذرانہ ہمیں
وصل میں تیرے خرابے بھی لگیں گھر کی طرح
اور تیرے ہجر میں بستی بھی ویرانہ ہمیں
سچ تمہارے سارے کڑوے تھے، مگر اچھے لگے
پھانس بن کر رہ گیا بس ایک افسانہ ہمیں
اجنبی لوگوں میں ہو تم، اور اتنی دور ہو
ایک الجھن سی رہا کرتی ہے روزانہ ہمیں
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment