Sunday 11 May 2014

گہرے سروں میں عرض نوائے حیات کر

گہرے سروں میں عرض نوائے حیات کر
سینے پہ ایک درد کی سِل رکھ کے بات کر
یہ دوریوں کا سیلِ رواں برگ نامہ بھیج
یہ فاصلوں کے بندِ گراں کوئی بات کر
تیرا دیار، رات مِری بانسری کی لے
اس خوابِ دلنشیں کو مِری کائنات کر
میرے غموں کو اپنے خیالوں میں بار دے
ان الجھنوں کو سلسلۂ واقعات کر
آ، ایک دن مِرے دلِ ویراں میں بیٹھ کر
اس دشت کے سکوتِ سخن جُو سے بات کر
امجدؔ نشاطِ زیست اسی کشمکش میں ہے
مرنے کا قصد، جینے کا عزم، ایک سات کر

مجید امجد

No comments:

Post a Comment