Monday 5 May 2014

لفظ بڑھے اور وعدے پھیلے دل کی حکایت ختم ہوئی

لفظ بڑھے اور وعدے پھیلے دل کی حکایت ختم ہوئی
وہاں ہوس کا پَھن لہرایا جہاں محبت ختم ہوئی
وہ بھی نہیں کہتا ملنے کو ہمیں بھی کچھ اصرار نہیں
سر سے سودا اتر گیا اور دل سے چاہت ختم ہوئی
جتنی کم سچائی ہو گی اتنی ہو گئی آرائش
جب مضمون سے لفط ہوں زائد سمجھو عبادت ختم ہوئی
جب تک سجدہ اسکے نام اسکے حضور ہے تب تک ہے
کام خدا سے کیا یاد آیا، ساری عبادت ختم ہوئی
دل کے غزال کو سارا دَم صحرا کی وسعت دیتی ہے
شہرِ رزق میں آ نکلا اور ساری وحشت ختم ہوئی

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment