آویزشیں بڑھتی ہی گئیں قلب و نظر میں
کیا کچھ ہے ابھی دیکھئے تقدیرِ بشر میں
چڑھتے ہوئے سورج نے میرے داغِ جگر پر
قربان کیا جو بھی تھا دامانِ سحر میں
میدان کا جیتا ہوا تنہائی میں ہارا
کیا جانئے، کیا سحر تھا کافر کی نظر میں
سناٹے نے لہرائے وہاں ماتمی پرچم
دن رات کھوے چِھلتے تھے جس راہگزر پر
گلگشت میں ہیں محو پِچھل پائیاں ہر سُو
آسیب نظر آتے ہیں ہر برگ و شجر میں
روشن کیا ہر چند چراغوں کو لہو سے
ظلمت کو اماں ملتی ہے لیکن اسی گھر میں
تدبیر کی آنکھوں میں کوئی جھونک دے اے کاش
وہ خاک کی مٹھی کہ ہے صحرا مِرے سر میں
جھڑنے لگے جب پاؤں تو یہ راز کھلا رہے
جز ذات و خواری نہ ملا ذوقِ سفر میں
وہ لاش ہوں جس کا نہیں وارث کوئی شہرتؔ
لاتی نہیں آنسو جو کسی دیدۂ تر میں
شہرت بخاری
No comments:
Post a Comment