Sunday 11 May 2014

یہ کیا عجیب راز ہے سمجھ سکوں تو بات ہے

یہ کیا عجیب راز ہے سمجھ سکوں تو بات ہے
نہ اب وہ ان کی بے رخی، نہ اب وہ التفات ہے
مری تباہیوں کا فسانہ بھی کیا فسانہ ہے
نہ بجلیوں کا تذکرہ نہ آشیاں کی بات ہے
یہ کیا سکوں ہے، اس سکوں میں کتنے اضطراب ہیں
یہ کس کا میرے سینے پر خنک سا ہات ہے
نگاہ میں بسا بسا، نگاہ سے بچا بچا
رُکا رُکا، کِچھا کِچھا، یہ کون میرے سات ہے
چراغ بُجھ چکے، پتنگے جل چکے، سحر ہوئی
مگر ابھی میری جدائیوں کی رات، رات ہے

مجید امجد

No comments:

Post a Comment