یہ کیا عجیب راز ہے سمجھ سکوں تو بات ہے
نہ اب وہ ان کی بے رخی، نہ اب وہ التفات ہے
مری تباہیوں کا فسانہ بھی کیا فسانہ ہے
نہ بجلیوں کا تذکرہ نہ آشیاں کی بات ہے
یہ کیا سکوں ہے، اس سکوں میں کتنے اضطراب ہیں
یہ کس کا میرے سینے پر خنک سا ہات ہے
نگاہ میں بسا بسا، نگاہ سے بچا بچا
رُکا رُکا، کِچھا کِچھا، یہ کون میرے سات ہے
چراغ بُجھ چکے، پتنگے جل چکے، سحر ہوئی
مگر ابھی میری جدائیوں کی رات، رات ہے
مجید امجد
نہ اب وہ ان کی بے رخی، نہ اب وہ التفات ہے
مری تباہیوں کا فسانہ بھی کیا فسانہ ہے
نہ بجلیوں کا تذکرہ نہ آشیاں کی بات ہے
یہ کیا سکوں ہے، اس سکوں میں کتنے اضطراب ہیں
یہ کس کا میرے سینے پر خنک سا ہات ہے
نگاہ میں بسا بسا، نگاہ سے بچا بچا
رُکا رُکا، کِچھا کِچھا، یہ کون میرے سات ہے
چراغ بُجھ چکے، پتنگے جل چکے، سحر ہوئی
مگر ابھی میری جدائیوں کی رات، رات ہے
مجید امجد
No comments:
Post a Comment