Thursday 29 May 2014

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے
خود راہ بنا لے گا بہتا ہوا پانی ہے
پھولوں میں غزل رکھنا یہ رات کی رانی ہے
اس میں تری زلفوں کی بے ربط کہانی ہے
اک ذہنِ پریشان میں وہ پھول سا چہرہ ہے
پتھر کی حفاظت میں شیشے کی جوانی ہے
کیوں چاندنی راتوں میں دریا پہ نہاتے ہو
سوئے ہوئے پانی میں کیا آگ لگانی ہے
اس حوصلہ دل پر ہم نے بھی کفن پہنا
ہنس کر کوئی پوچھے گا کیا جان گنوانی ہے
رونے کا اثر دل پر رہ رہ کے بدلتا ہے
آنسو کبھی شیشہ ہے آنسو کبھی پانی ہے
یہ شبنمی لہجہ ہے، آہستہ غزل پڑھنا
تتلی کی کہانی ہے پھولوں کی زبانی ہے

بشیر بدر

No comments:

Post a Comment