Wednesday, 7 May 2014

میں وہ درخت ہوں کھاتا ہے جو بھی پھل میرے

میں وہ درخت ہوں کھاتا ہے جو بھی پھل میرے
ضرور مجھ سے یہ کہتا ہے ساتھ چل میرے
یہ کائنات تصرف میں تھی رہے جب تک
نظر بلند مری،۔۔ فیصلے اٹل میرے
مجھے نہ دیکھ، میری بات سن، کہ مجھ سے ہیں
کہیں کہیں متصادم بھی کچھ عمل میرے
بچا ہی کیا ہوں، میں آواز رہ گیا ہوں فقط
چُرا کے رنگ تو سب لے گئی غزل میرے
یہ تب کی بات ہے جب تم سے رابطہ بھی نہ تھا
ابھی ہوئے ناں تھے اشعار مبتذل میرے
یہ خوف مجھ کو اُڑاتا ہے وقت کی مانند
کہ بیٹھنے سے نہ ہو جائیں پاؤں شل میرے
وہ دن تھے اور نہ جانے وہ کون سے دن تھے
ترے بغیر گزرتے نہیں تھے پَل میرے
کبھی ملے گا کہیں شہرِ خواب سے باہر
اگر نہیں تو خیالوں سے بھی نکل میرے
میں کس طرح کا ہوں یہ تو بتا نہیں سکتا
مگر یہ طے ہے کہ ہیں یار بے بدل میرے
جلا ہوں ہجر کے شعلوں میں بارہا اجملؔ
مگر میں عشق ہوں جاتے نہیں ہیں بل میرے

اجمل سراج

No comments:

Post a Comment