ہر چند سہارا ہے تِرے پیار کا دل کو
رہتا ہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو
وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی لے اڑا نیندیں
وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی، کھا گیا دل کو
یا سانس کا لینا بھی گزر جانا ہے جی سے
یا معرکۂ عشق بھی اک کھیل تھا دل کو
وہ آئیں تو حیران، وہ جائیں تو پریشان
یارب کوئی سمجھائے یہ کیا ہو گیا دل کو
سونے نہ دیا شورشِ ہستی نے گھڑی بھر
میں لاکھ ترا ذکر سناتا رہا دل کو
رودادِ محبت نہ رہی اس کے سوا یاد
اک اجنبی آیا تھا اڑا لے گیا دل کو
جز گردِ خموشی نہیں شہرتؔ یہاں کچھ بھی
کس منزلِ آباد میں پہنچا لیا دل کو
شہرت بخاری
No comments:
Post a Comment