Sunday 11 May 2014

ہمارے خون کے پیاسے پشیمانی سے مر جائیں

ہمارے خون کے پیاسے پشیمانی سے مر جائیں
اگر ہم ایک دن اپنی ہی نادانی سے مر جائیں
اذیت سے جنم لیتی سہولت راس آتی ہے
کوئی ایسی پڑے مشکل کہ آسانی سے مر جائیں
ادھوری ہی نظر کافی ہے اس آئینہ داری پر
اگر ہم غور سے دیکھیں تو حیرانی سے مر جائیں
بنا رکھیں ہیں دیواروں پہ تصویریں پرندوں کی
وگرنہ ہم تو اپنے گھر کی ویرانی سے مر جائیں
اگر وحشت کا یہ عالم رہا تو عین ممکن ہے
سکوں سے جیتے جیتے بھی پریشانی سے مر جائیں
کہیں ایسا نہ ہو یارب! کہ یہ ترسے ہوئے عابد
تری جنت میں اشیاء کی فراوانی سے مر جائیں

افضل خان

No comments:

Post a Comment