Saturday 3 May 2014

جیسے ہم بزم ہیں پھر یار طرحدار سے ہم

جیسے ہم بزم ہیں پھر یارِ طرحدار سے ہم​
رات مِلتے رہے اپنے در و دیوار سے ہم​
سرخوشی میں یونہی دل شاد و غزل خواں گزرے​
کوئے قاتل سے کبھی کوچۂ دلدار سے ہم​
کبھی منزل، کبھی رَستے نے ہمیں ساتھ دیا​
ہر قدم الجھے رہے قافلہ سالار سے ہم​
ہم سے بے بہرہ ہوئی اب جرسِ گُل کی صدا​
ورنہ واقف تھے ہر اِک رنگ کی جھنکار سے ہم​
فیضؔ جب چاہا جو کچھ چاہا سدا مانگ لیا​
ہاتھ پھیلا کے دلِ بے زر و دینار سے ہم​

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment