جیسے ہم بزم ہیں پھر یارِ طرحدار سے ہم
رات مِلتے رہے اپنے در و دیوار سے ہم
سرخوشی میں یونہی دل شاد و غزل خواں گزرے
کوئے قاتل سے کبھی کوچۂ دلدار سے ہم
کبھی منزل، کبھی رَستے نے ہمیں ساتھ دیا
ہر قدم الجھے رہے قافلہ سالار سے ہم
ہم سے بے بہرہ ہوئی اب جرسِ گُل کی صدا
ورنہ واقف تھے ہر اِک رنگ کی جھنکار سے ہم
فیضؔ جب چاہا جو کچھ چاہا سدا مانگ لیا
ہاتھ پھیلا کے دلِ بے زر و دینار سے ہم
فیض احمد فیض
رات مِلتے رہے اپنے در و دیوار سے ہم
سرخوشی میں یونہی دل شاد و غزل خواں گزرے
کوئے قاتل سے کبھی کوچۂ دلدار سے ہم
کبھی منزل، کبھی رَستے نے ہمیں ساتھ دیا
ہر قدم الجھے رہے قافلہ سالار سے ہم
ہم سے بے بہرہ ہوئی اب جرسِ گُل کی صدا
ورنہ واقف تھے ہر اِک رنگ کی جھنکار سے ہم
فیضؔ جب چاہا جو کچھ چاہا سدا مانگ لیا
ہاتھ پھیلا کے دلِ بے زر و دینار سے ہم
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment