Saturday 3 May 2014

گزرا ہوں جس طرف سے بھی پتھر لگے مجھے

گزرا ہوں جس طرف سے بھی پتھر لگے مجھے
ایسے بھی کیا تھے لعل و جواہر لگے مجھے
لو ہو چکی شفا کہ مداوائے دردِ دل
اب تیری دسترس سے بھی باہر لگے مجھے
ترسا دیا ہے ابرِ گریزاں نے اس قدر
برسے جو بوند بھی تو سمندر لگے مجھے
تھامے رہو گے جسم کی دیوار تابکے
یہ زلزلہ تو روح کے اندر لگے مجھے
گر روشنی یہی ہے تو اے بدنصیب شہر
اب تیرگی ہی تیرا مقدر لگے مجھے
منزل کہاں کی زادِ سفر کو بچائیو
اب رہزنوں کی نیّتِ رہبر لگے مجھے
وہ مطمئن کہ سب کی زباں کاٹ دی گئی
ایسی خموشیوں سے مگر ڈر لگے مجھے
وہ قحطِ حرفِ حق ہے کہ اس عہد میں فرازؔ
خود سا گنہ گار پیمبر لگے مجھے

 احمد فراز

No comments:

Post a Comment