Saturday 10 May 2014

دشت تنہائی میں کل رات ہوا کیسی تھی

دشتِ تنہائی میں کل رات ہوا کیسی تھی
دیر تک ٹوٹتے لمحوں کی صدا کیسی تھی
زندگی نے مِرا پیچھا نہیں چھوڑا اب تک
عمر بھر سر سے نہ اُتری، یہ بلا کیسی تھی
سنتے رہتے تھے محبت کے فسانے کیا کیا
بُوند بھر دل پہ نہ برسی، یہ گھٹا کیسی تھی
کیا مِلا فیصلۂ ترکِ تعلق کر کے
تم جو بچھڑے تھے تو ہونٹوں پہ دعا کیسی تھی
ٹوٹ کر خود جو وہ بکھرا ہے تو معلوم ہوا
جس سے لِپٹا تھا، وہ دیوارِ انا کیسی تھی
جسم سے نوچ کے پھینکی بھی تو خوشبو نہ گئی
یہ روایات کی بوسیدہ قبا کیسی تھی
ڈوبتے وقت بھنور پوچھ رہا ہے قیصرؔ
جب کنارے سے چلے تھے تو فضا کیسی تھی

 قیصر الجعفری

No comments:

Post a Comment