Monday 5 May 2014

جیسے مشام جاں میں سمائی ہوئی ہے رات

جیسے مشامِ جاں میں سمائی ہوئی ہے رات
خوشبو میں آج کس کی نہائی ہوئی ہے رات
سرگوشیوں میں بات کریں ابر و باد و خاک
اس وقت کائنات پہ چھائی ہوئی ہے رات
ہر رنگ جس میں خواب کا گھلتا چلا گیا
کس رنگ سے خدا نے بنائی ہوئی ہے رات
پھولوں نے اس کا جشن منایا زمین پر
تاروں نے آسماں پہ سجائی ہوئی ہے رات
وہ چاند چھپ چکا ہے مگر شہرِ دید نے
اب تک اسی طرح سے بسائی ہوئی ہے رات
صبحِ جمالِ یار کے جادو کو دیکھ کے
ہم نے نظر سے اپنی چھپائی ہوئی ہے رات

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment