Friday, 2 May 2014

تیری مرضی کے خد و خال میں ڈھلتا ہوا میں

تیری مرضی کے خد و خال میں ڈھلتا ہوا میں
خاک سے آب نہ ہو جاؤں پگھلتا ہوا میں
اے خزاں میں تجھے خوشرنگ بنا سکتا تھا
تجھ سے دیکھا نہ گیا پھولتا پھلتا ہوا میں
مجھ کو مانگی ہوئی عزت نہیں پوری آتی
ٹوٹ جاؤں نہ یہ پوشاک بدلتا ہوا میں
شعبدہ گر نہیں، مہمانِ صفِ یاراں ہوں
زہر پیتا ہوا اور شہد اگلتا ہوا میں
یم بہ یم روح مچلتی ہوئی مچھلی کی طرح
دم بہ دم وقت کے ہاتھوں سے پھسلتا ہوا میں
اب مِری راکھ اڑا یا مجھے آنکھوں سے لگا
تجھ تلک آ گیا ہوں آگ پہ چلتا ہوا میں
کہہ رہی ہیں مجھے وہ حوصلہ افزا آنکھیں
روح تک جاؤں خد و خال مسلتا ہوا میں
ہو نہ ہو ایک ہی تصویر کے دو پہلو ہیں
رقص کرتا ہوا تُو، آگ میں جلتا ہوا میں
لغزشیں اور بھی لغزش کی تلافی میں تھیں
ریزہ ریزہ ہوا گر گر کے سنبھلتا ہوا میں
کارِ درویشی جزایاب ہے، لیکن شاہدؔ
خوش نہیں خلوتِ خالی سے بہلتا ہوا میں

شاہد ذکی

No comments:

Post a Comment