Tuesday 27 May 2014

لازم نہیں کہ اس کو بھی میرا خیال ہو

لازم نہیں کہ اس کو بھی میرا خیال ہو
جو میرا حال ہے وہی اس کا بھی حال ہو
کچھ اور دلگداز ہوں اس شہرِ سنگ میں
کچھ اور پُر ملال، ہوائے ملال ہو
باتیں تو ہوں کچھ تو دلوں کی خبر ملے
آپس میں اپنے کچھ تو جواب و سوال ہو
رہتے ہے آج جس میں جسے دیکھتے ہیں ہم
ممکن ہے یہ گزشتہ کا خواب و خیال ہو
سب شورِ شہر خاک کا ہے قربِ آب سے
پانی نہ ہو تو شہر کا جینا محال ہو
معدوم ہوتی جاتی ہوئی شے ہے یہ جہاں
ہر چیز اس کی جیسے فنا کی مثال ہو
کوئی خبر خوشی کی کہیں سے ملے منیرؔ
ان روز و شب میں ایسا بھی اک دن کمال ہو

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment