Monday, 5 May 2014

یہاں آئین بکتا ہے، یہاں قانون بکتا ہے

یہاں آئین بِکتا ہے، یہاں قانون بِکتا ہے
خُدا کی مملکت میں آدمی کا خون بِکتا ہے
لفافوں اور پلاٹوں کے عوض بِکتی ہے خودداری
یہاں پر میڈیا کا سیٹھ افلاطون بِکتا ہے
کوئی ڈالر میں بِکتا ہے کوئی کِک بیک کے بدلے
یہاں فرعون بِکتا ہے، یہاں قارون بِکتا ہے
یہاں قیمت لگا کرتی ہے ہر کافر وڈیرے کی
یہاں پینڈو پپیہا پہن کر پتلون بِکتا ہے
گلوبل مارکیٹ ہے آ گیا ہر مال دو نمبر
ہر اک غدار، بد اطوار، ہر ملعون بِکتا ہے
یہ مسجد کے عقب میں اِک دُکاں ہے میر مُلّا کی
یہاں رازی، غزالی اور بِن خلدون بِکتا ہے
خریداروں کی فوجیں آ گئی ہیں دور دیسوں سے
ہر اِک پاگل، ہر اِک جاہل، ہر اِک مجنون بِکتا ہے
چلو بھاگو، میاں مسعودؔ، رکھ کر پاؤں تم سر پر
یہاں ہر شہر میں سرطان اور طاعون بِکتا ہے

مسعود منور

No comments:

Post a Comment