Saturday, 10 May 2014

واں نقاب اٹھی کہ صبح حشر کا منظر کھلا

واں نقاب اٹھی کہ صبح حشر کا منظر کھلا 
یا کسی کے حسن عالم تاب کا دفتر کھلا
غیب سے پچھلے پہر آتی ہے کانوں میں صدا 
اٹھو اٹھو رحمت رب علا کا در کھلا
آنکھ جھپکی تھی تصور بندھ چکا تھا یار کا 
چونکتے ہی حسرت دیدار کا دفتر کھلا
کوئے جاناں کا سماں آنکھوں کے آگے پھر گیا 
صبح جنت کا جو اپنے سامنے منظر کھلا
رنگ بدلا پھر ہوا کا مے کشوں کے دن پھرے 
پھر چلی باد صبا پھر مے کدے کا در کھلا
آ رہی ہے صاف بوئے سنبل باغ جناں 
گیسوئے محبوب شاید میری میت پر کھلا
چار دیوار عناصر پھاند کر پہنچے کہاں 
آج اپنا زور وحشت عرش اعظم پر کھلا
چپ لگی مجھ کو گناہ عشق ثابت ہو گیا 
رنگ چہرے کا اڑا راز دل مضطر کھلا
اشک خوں سے زرد چہرے پر ہے کیا طرفہ بہار 
دیکھیے رنگ جنوں کیسا مرے منہ پر کھلا
خنجر قاتل سے جنت کی ہوا آنے لگی 
اور بہار زخم سے فردوس کا منظر کھلا
نیم جاں چھوڑا تری تلوار نے اچھا کیا 
ایڑیاں بسمل نے رگڑیں صبر کا جوہر کھلا
صحبت واعظ میں بھی انگڑائیاں آنے لگیں 
راز اپنی مے کشی کا کیا کہیں کیونکر کھلا
ہاتھ الجھا ہے گریباں میں تو گھبراؤ نہ یاس
بیڑیاں کیونکر کٹیں زنداں کا در کیونکر کھلا

یاس یگانہ چنگیزی

No comments:

Post a Comment