Saturday 17 May 2014

پھرے دشت دشت شاید در و بام کی اداسی

پھرے دشت دشت شاید در و بام کی اداسی
مِرے بعد کیا کرے گی مِرے نام کی اداسی
مِرے ہمسفر تھے کیا کیا، میں کسی کو اب کہوں کیا
کوئی دھوپ دوپہر کی، کوئی شام کی اداسی
کہیں اور کا ستارہ، مِری آنکھ پر اتارا
مجھے آسماں نے دی ہے بڑے کام کی اداسی
مجھے یاد آ رہی ہے وہ سفر کی خوشگواری
مِرا دل دُکھا رہی ہے یہ قیام کی اداسی
وہ غزال رنگ آنکھیں جو پلٹ گئیں تو دیکھا
ہوئی اک نظر میں اوجھل کئی گام کی اداسی
یہ شفق شراب منظر مِری آنکھ کا تخیل
مِری بیکسی کی کاوش سرِ شام کی اداسی
وہی میکدہ ہے عاصمؔ وہی انتظارِ ساقی
وہی گوشۂ تمنا وہی جام کی اداسی

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment