کوٹھے اجاڑ، کھڑکیاں چپ، راستے اداس
جاتے ہی ان کے کچھ نہ رہا زندگی کے پاس
دو پَل برس کے ابر نے دریا کا رخ کیا
تپتی زمیں سے پہروں نکلتی رہی بھڑاس
اشکوں سے کس کو پیار ہے آہوں سے کس کو اُنس
لیکن یہ دل کہ جس کو خوشی آ سکی نہ راس
ہوشیار، اے نویدِ اجل! لُٹ نہ جائیو
پھرتا ہے کوئی آٹھ پہر دل کے آس پاس
جیسے کبھی تعلقِ خاطر نہیں رہا
یوں روٹھ کر چلی گئی شہرتؔ ہر ایک آس
شہرت بخاری
No comments:
Post a Comment