Saturday, 10 May 2014

در و دیوار پہ ہجرت کے نشاں دیکھ آئیں

در و دیوار پہ ہجرت کے نِشاں دیکھ آئیں
آؤ ہم اپنے بزرگوں کے مکاں دیکھ آئیں
اپنی قسمت میں لکھے ہیں جو وراثت کی طرح
آؤ اک بار وہ زخمِ دل و جاں دیکھ آئیں
آؤ بِھیگی ہوئی آنکھوں سے پڑھیں نوحۂ دل
آؤ بکھرے ہوئے رشتوں کا زِیاں دیکھ آئیں
جس سے ٹکرا کے گرے تھے کبھی اربابِ خرد
آؤ نزدیک سے وہ سنگِ گراں دیکھ آئیں
وقت جاتے ہوئے کیا لکھ گیا پیشانی پر
آؤ آشفتگئ عہدِ رواں دیکھ آئیں
ٹوٹا ٹوٹا ہوا دل لے کے پِھِریں گلیوں میں
کچی مٹی کے کھلونوں کی دکاں دیکھ آئیں
روشنی کے کہیں آثار تو باقی ہوں گے
آؤ پِگھلی ہوئی شمعوں کا دھواں دیکھ آئیں
جِن درختوں کے تلے رقصِ صبا ہوتا تھا
سوکھے پتوں کا برسنا بھی وہاں دیکھ آئیں
اُڑ رہے ہوں گے کہیں، جھنڈ ابابیلوں کے
آؤ سُنسان دریچوں کا سماں دیکھ آئیں
اب فرشتوں کے سوا کوئی نہ آتا ہو گا
کون دیتا ہے خرابے میں اذاں، دیکھ آئیں
مدتوں بعد مہاجر کی طرح آئے ہیں
رُوٹھ جائے نہ کھنڈر، آؤ میاں دیکھ آئیں

قیصر الجعفری

No comments:

Post a Comment