Tuesday, 6 May 2014

اپنی وابستگئ نو سے بھی کٹ کر آتے

اپنی وابستگئ نو سے بھی کٹ کر آتے
ہم کو کیا ایسی پڑی تھی کہ پلٹ کر آتے
چھوٹی سے چھوٹی پریشانی بھی یاد آئے گی
ہم کو معلوم نہ تھا ورنہ نمٹ کر آتے
ہم کو یہ کھیل ادھورے نہیں اچھے لگتے
ہم اگر آتے تو پھر بازی الٹ کر آتے
روح کے ساتھ نہ دینے سے یہ خواہش ہی رہی
ہم تیرے مدمقابل کبھی ڈٹ کر آتے
تجھ سے دو طرفہ عداوت تھی بہت بچپن سے
کیسے ممکن تھا تیرے سامنے گھٹ کر آتے
جیسے قیدی کوئی اپنوں سے بچھڑتا ہے کبھی
میرے آنسو میری پلکوں سے لپٹ کر آتے

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment