ابر میں برق کے گلزار دکھاتے اس کو
کاش اس رات کبھی جا کے جگاتے اس کو
شہ نشینوں پہ ہوا پھرتی ہے کھوئی کھوئی
اب کہاں ہے وہ مکیں، یہ تو بتاتے اس کو
وہ جو پاس آ کے یونہی چپ سا کھڑا رہتا تھا
اس کی تو خُو تھی یہی، تم ہی بلاتے اس کو
غمگساری کی طلب تھی یہ محبت تو نہ تھی
درد جب دل میں اٹھا تھا تو چھپاتے اس کو
فائدہ کیا ہے اگر اب وہ ملے بھی تو منیرؔ
عمر تو بیت گئی راہ پہ لاتے اس کو
منیر نیازی
کاش اس رات کبھی جا کے جگاتے اس کو
شہ نشینوں پہ ہوا پھرتی ہے کھوئی کھوئی
اب کہاں ہے وہ مکیں، یہ تو بتاتے اس کو
وہ جو پاس آ کے یونہی چپ سا کھڑا رہتا تھا
اس کی تو خُو تھی یہی، تم ہی بلاتے اس کو
غمگساری کی طلب تھی یہ محبت تو نہ تھی
درد جب دل میں اٹھا تھا تو چھپاتے اس کو
فائدہ کیا ہے اگر اب وہ ملے بھی تو منیرؔ
عمر تو بیت گئی راہ پہ لاتے اس کو
منیر نیازی
No comments:
Post a Comment