Saturday 10 May 2014

سناتا ہے کوئی بھولی کہانی

سناتا ہے کوئی بھولی کہانی
مہکتے میٹھے دریاؤں کا پانی
یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے
سنا ہے میں نے لوگوں ‌کی زبانی
یہاں اک شہر تھا، شہرِ نگاراں
نہ چھوڑی وقت نے اس کی نشانی
میں وہ دل ہوں دبستانِ الم کا
جسے روئے گی صدیوں شادمانی
تصور نے اسے دیکھا ہے اکثر
خرد کہتی ہے جس کو لا مکانی
خیالوں ہی میں‌اکثر بیٹھے بیٹھے
بسا لیتا ہوں اک دنیا سہانی
ہجومِ نشۂ فکرِ سخن میں
بدل جاتے ہیں لفظوں کے معانی
بتا اے ظلمتِ صحرائے امکاں
کہاں ہو گا مرے خوابوں ‌کا ثانی
اندھیری شام کے پردوں میں‌ چھپ کر
کسے روتی ہے چشموں کی روانی
کرن پریاں اترتی ہیں کہاں سے
کہاں جاتے ہیں رستے کہکشانی
پہاڑوں سے چلی پھر کوئی آندھی
اُڑے جائے ہیں اوراقِ خزانی
نئی دنیا کے ہنگاموں میں‌ ناصرؔ
دبی جاتی ہیں آوازیں پرانی

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment