Monday 5 May 2014

سمندروں کے ادھر سے کوئی صدا آئی

سمندروں کے ادھر سے کوئی صدا آئی
دلوں کے بند دریچے کھلے، ہوا آئی
سرک گئے تھے جو آنچل، وہ پھر سنور گئے
کھلے ہوئے تھے جو سر، ان پہ پھر رِدا آئی
اتر رہی ہیں عجب خوشبوئیں رگ و پے میں
یہ کس کو چھو کے مِرے شہر میں صبا آئی
اسے پکارا تو ہونٹوں پہ کوئی نام نہ تھا
محبتوں کے سفر میں عجب فضا آئی
کہیں رہے وہ، مگر خیریت کے ساتھ رہے
اٹھائے ہاتھ، تو یاد ایک ہی دعا آئی

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment