Saturday 17 May 2014

کیسی ہے رہگزار وہ دیکھیں گے جا کے اب اسے

کیسی ہے رہگزار وہ دیکھیں گے جا کے اب اسے
بیت گئے برس بہت دیکھا تھا ہم نے جب اسے
جاگے گا خوابِ ہجر سے، آئے گا لوٹ کر یہیں
دیکھیں گے خوف و شوق سے روزن و در سے سب اسے
صحرا نہیں یہ شہر ہے اور بھی لوگ ہیں یہاں
چاروں طرف مکان ہیں، اتنا ہے ہوش کب اسے
کہنے کو بات کچھ نہیں جانا ہے اس کو تجھ کو بھی
کیوں تُو کھڑا ہے راہ میں روک کے بے سبب اسے
باغوں میں جا، اے خوش نوا! آئی بسنت کی ہوا
زرد ہوا ہے بن عجب، جادو چڑھا عجب اسے
اک اک ورق ہے بابِ زر تیری غزل کا اے منیر
جب یہ کتاب ہو چکے جا کے دکھانا تب اسے​

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment