Saturday 3 May 2014

حیرت ہے لوگ اب بھی اگر خوش عقیدہ ہیں

حیرت ہے لوگ اب بھی اگر خوش عقیدہ ہیں
ہم ساکنانِ قریۂ آفت رسیدہ ہیں
اس سنگ زار میں ہُنرِ آذری ہے شرط
کتنے صنم ہیں جو ابھی نا آفریدہ ہیں
ہم حرف گر، ہزار کہیں دل کے مرثیے
اس بارگاہ میں تو سراپا قصیدہ ہیں
رُکتا ہے کون کب کسی آتش بجاں کے پاس
حیرت نہیں جو آپ بھی دامن کشیدہ ہیں
اے دوست! ہم کو اتنا تنک حوصلہ نہ جان
کوئی سبب تو ہو گا جو ہم آبدیدہ ہیں
کچھ دیر کو ہیں بس قفسِ رنگ کے اسیر
ٹک گُل کِھلے تو جانیو، بُوئے رسیدہ ہیں
ہم اب بھی اہلِ دہر پہ رکھتے ہیں اعتبار
ہر چند گرم و سرد زمانہ چشیدہ ہیں
فرصت ملے تو آ مِرے خلوت کدے میں سُن
دیوان میں کہاں جو سخن چیدہ چیدہ ہیں
ہم اہلِ دل سے اہلِ جہاں کے تعلقات
ہیں تو سہی فرازؔ مگر خط کشیدہ ہیں

احمد فراز

No comments:

Post a Comment